طلوع
کسے یقیں تھا کہ پلٹے گی رات کی کایا
کٹی تو رات مگر ایک ایک پل گن گن
افق پہ آئی بھی تھی سرخیٔ سحر لیکن
سحر کے ساتھ ہی ابر سیاہ بھی آیا
سحر کے ساتھ ہی حد نگاہ تک چھایا
یہ کیا غضب ہے کہ اب تیرہ تر ہے رات سے دن
زمانہ شوخ شعاعو اداس ہے تم بن
بس اک جھلک کہ اٹھے سر سے یہ گھنا سایا
یہ ڈر بھی ہے کہ شعاعیں نہ جگمگا اٹھیں
کوئی شعاع جو اٹھی بھی لے کے انگڑائی
اور اٹھ کے عالم تاریک میں وہ در آئی
تو آ کے دیکھے گی ہے نور و بے بصر آنکھیں
نہیں ہے جن کے لیے فرق نور و ظلمت میں
کہ اب ہیں خواب عدم میں سحر کے سودائی
- کتاب : sar-e-shaam se pas-e-harf tak (Pg. 101)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.