ریل گزری
دندناتی
چیخ برماتی
اک ہمکتا مسکراتا پھول تھامے
ہاتھ کی ہلکی سی جنبش
(سلام آخری)
چاقوؤں کی دھار پیشانی میں دھنس کر رہ گئی
روز و شب معمول کے سب سائبانوں میں دراڑیں پڑ گئیں
پھن اٹھائے پٹریوں کے ناگ بل کھانے لگے
سرخ انگارے بجھے
سبز زہری جھنڈیاں لہرا گئیں
کھولتا جلتا لہو جمنے لگا
اوس امیدوں پہ جیسے پڑ گئی
تیز رو پہیے مرے سینے سے گزرے
اور ہمیشہ کے لیے جیسے سگنل گر گیا
یاد کی اندھی سرنگی آنکھ
اب اک روشنی کا دائرہ تھا
چلچلاتی روشنی
جیسے ایندھن بیس برسوں کا یکایک جل اٹھے
تم اگر رکتے
تو میں اس روشنی کے دائرے کو تھام لیتا
آہنی بھٹی میں اپنا سب اثاثہ جھونک دیتا
اور ہم اس روشنی میں
اپنی تحریروں کے وہ الفاظ پڑھ لیتے
جو میری لوح پر محفوظ ہیں
ایک کتبے کی طرح سے آج بھی محفوظ ہیں
تم اگر رکتے
تو میں تم کو دکھاتا
الوداعی سیٹیوں کی چیخ سن کر
ہر طرف محشر بپا ہے
میرے اندر مرنے والا ہے
ایک عالم جاگ اٹھا ہے
کس قیامت کی گھڑی ہے
تم اگر رکتے
تو میں اقبال کرتا
اپنے ہاتھوں آپ اپنے قتل کا اقبال کرتا
تم اگر رکتے!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.