تم خدا نہیں ہو
نہیں
اب مجھے صدا نہ دو
کہ شام ڈھلنے لگی ہے
ابھی کچھ دیر میں سبھی راستے گم ہو جائیں گے
مجھ میں وہی شخص بولے گا
شام سے میں بجھا بجھا سا رہتا ہوں
تمہیں کیا کہوں
تم کسی حسین خواب کے پروں پر سوار
بے نام سمتوں میں
خود کو پانے کے لیے چلے جاؤ گے
میں اکیلا ہی سہی
اور سنو
کسی بے نام سمت میں
کوئی ملے تو اتنا ہی کہو
کہ میں صدیوں سے آب حیات کے ایک جرعے کی برش
حلقوم میں اتارے تمہارا منتظر ہوں
اور یہ بھی سنو
کہیں راستے میں
رات مل جائے تو اس سے کہو
کہ میں اندھیرا نہیں ہوں
میں برسہا برس سے
چاندنی کو پانے کے لیے
دھوپ کی باگ کو تھامے ہوئے
کانچ کے ٹکڑوں کا سفوف چبانے لگا ہوں
جب میرے سارے حواس
فضاؤں میں تحلیل ہو جائیں
تو تم میرے جسم میں
بس ایک ہی بار صور پھونکو
اور پھر
تم مجھ سے کہو کہ اب بھی تم خدا نہیں ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.