تمہارا آستاں معلوم ہوتی ہے
کبھی راحت کبھی آزار جاں معلوم ہوتی ہے
محبت ایک پیہم امتحاں معلوم ہوتی ہے
جو تم روٹھے بہار زندگی بھی پھر گئی مجھ سے
نوید گل بھی پیغام خزاں معلوم ہوتی ہے
فریب آرزو نے کر دیا گم گشتہ منزل
کہ گرد راہ بھی سنگ نشاں معلوم ہوتی ہے
سر سجدہ جھکایا اس قدر شوق عبادت نے
جبیں میری تمہارا آستاں معلوم ہوتی ہے
کچھ ایسے بس گئے ہو دل میں آنکھوں میں تصور میں
کہ دو قالب ہیں لیکن ایک جاں معلوم ہوتی ہے
کبھی روح طرب رقصاں نظر آتی تھی کانٹوں میں
نشاط گل بھی اب آزار جاں معلوم ہوتی ہے
نہ چھیڑ اے ہم نشیں اتنا الم انگیز افسانہ
کہ سنتا ہوں تو اپنی داستاں معلوم ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.