Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تمہیں لکھنا نہ آتا تھا

عشرت آفریں

تمہیں لکھنا نہ آتا تھا

عشرت آفریں

MORE BYعشرت آفریں

    سنا ہے تم منوں مٹی تلے آرام کرتی ہو

    تم اور آرام نا ممکن

    سنا ہے موت سے بھی آخری دم تک لڑائی کی

    مجھے معلوم ہے تم کتنی ضدی تھیں

    قسم ان کھردرے ہاتھوں کی

    میں جن میں قلم پکڑے ہوئے ہوں

    نہایت بے ایمانی سے

    تمہیں ہر بار میں تم سے چرا کر نظم بنتی ہوں

    کہانی کاڑھتی ہوں

    اور سب سے جھوٹ کہتی ہوں

    کہ سارے حرف میرے ہیں

    سنا ہے جس گھڑی دنیا میں میں آئی

    تمہیں نے شہد بھی مجھ کو چٹایا

    ریشمی انگلی سے کاجل بھی لگایا تھا

    وہ پہلا شہد کا قطرہ

    مرے شعروں میں رس بن کر مہکتا ہے

    تو مجھ پر داد اور تحسین کی برسات ہوتی ہے

    وہ کاجل ریشمی انگلی سے جو تم نے لگایا تھا

    مری آنکھوں میں ایسا نور لایا

    کہ جو نیکی بدی میں خط فاصل کھینچ دیتا ہے

    ترائی کے بہت چھوٹے سے قصبے کے

    کسی خاموش آنگن میں

    مجھے تم دودھ چاول

    چاند کی میٹھی کٹوری میں کھلاتی تھیں

    تو رانی کیتکی والی کہانی بھی سناتی تھیں

    کبھی تم اپنے پہلو میں لٹا کر

    آسماں کے نت نئے اسرار سمجھاتیں

    وہ دیکھو

    کہکشاں کہتے ہیں جس کو یہ حقیقت میں

    نبی جی کی سواری کے قدم کی دھول ہے ساری

    کبھی تم دل نشیں آواز میں لوری سناتی تھیں

    مگر میں بھی تمہاری ہی طرح کی ایک ضدی تھی

    مجھے کب نیند آتی تھی

    تمہاری ریشمی انگلی پکڑ کر میں

    انوکھی کہکشاؤں کے سفر پر چل نکلتی تھی

    انوکھی کہکشائیں جو گلی کوچوں میں بکھری تھیں

    وہ اک نا بینا بڑھیا

    جس کے ٹوٹے جھونپڑے میں

    شب کی تاریکی میں تم جا کر

    نوالہ اپنے ہاتھوں سے کھلاتی تھیں

    محلے میں کوئی بچہ جو آدھی رات کو روتا

    تو تم بے چین ہی رہتی تھیں جب تک ہو نہ آتی تھیں

    تمہیں بچوں سے اور بچوں کو تم سے عشق تھا گویا

    کہا جاتا ہے تم دشمن بنانے میں بھی ماہر تھیں

    حریص ایسی

    کہ کم قیمت کوئی ملبوس نظروں میں نہ لاتی تھیں

    غنی ایسی

    کہ اک لقمہ نہ مرضی کے خلاف اپنے اٹھاتی تھیں

    رعونت اور درویشی

    تمہاری ذات کے اک منطقے پر آن ملتے تھے

    شکایت رنج بیماری

    یہ وہ الفاظ تھے جن کو

    لغت سے اپنی خارج کر دیا تھا جانے کب تم نے

    سنا یہ ہے تمہیں قرآن بھی اچھی طرح پڑھنا نہ آتا تھا

    مگر میں نے تو یہ دیکھا

    گلی کے کتنے ہی آوارہ کتے دم دبا کر بیٹھ جاتے تھے

    تمہاری ایک صم اور بکمن کی تلاوت سے

    تمہارے ہاتھ کے میٹھے ملیدے میں

    جو درگاہوں کی خوشبو تھی

    میں لکھنا چاہتی ہوں تو

    سمٹ کر جذب ہو جاتی ہے کاغذ میں

    تمہارے پوپلے ہونٹوں کا نازک خم

    اک ایسا حرف ابجد تھا

    جسے جتنا میں پڑھتی ہوں

    نئے اسرار کھلتے ہیں

    روپہلی جلد کی افشاں بکھر جاتی ہے کاغذ پر

    کبھی قرطاس پر تم جھریوں میں جھلملاتی ہو

    ہمیشہ کی طرح سے میٹھے میٹھے مسکراتی ہو

    تو اپنے کھردرے ہاتھوں کو میں حیرت سے تکتی ہوں

    سنا یہ ہے تمہیں لکھنا نہ آتا تھا

    تمہارے ہاتھ کی کپڑے کی گڑیا

    اور گلابی رنگ کی مٹی کی چڑیا

    لفظ بن کر جب بھی کاغذ پر چہکتی ہیں

    میں چالاکی سے ہنستی ہوں

    چلو اچھا ہے لوگوں کو یہی معلوم ہے اب تک

    تمہیں لکھنا نہ آتا تھا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے