تمہیں لکھنا نہ آتا تھا
سنا ہے تم منوں مٹی تلے آرام کرتی ہو
تم اور آرام نا ممکن
سنا ہے موت سے بھی آخری دم تک لڑائی کی
مجھے معلوم ہے تم کتنی ضدی تھیں
قسم ان کھردرے ہاتھوں کی
میں جن میں قلم پکڑے ہوئے ہوں
نہایت بے ایمانی سے
تمہیں ہر بار میں تم سے چرا کر نظم بنتی ہوں
کہانی کاڑھتی ہوں
اور سب سے جھوٹ کہتی ہوں
کہ سارے حرف میرے ہیں
سنا ہے جس گھڑی دنیا میں میں آئی
تمہیں نے شہد بھی مجھ کو چٹایا
ریشمی انگلی سے کاجل بھی لگایا تھا
وہ پہلا شہد کا قطرہ
مرے شعروں میں رس بن کر مہکتا ہے
تو مجھ پر داد اور تحسین کی برسات ہوتی ہے
وہ کاجل ریشمی انگلی سے جو تم نے لگایا تھا
مری آنکھوں میں ایسا نور لایا
کہ جو نیکی بدی میں خط فاصل کھینچ دیتا ہے
ترائی کے بہت چھوٹے سے قصبے کے
کسی خاموش آنگن میں
مجھے تم دودھ چاول
چاند کی میٹھی کٹوری میں کھلاتی تھیں
تو رانی کیتکی والی کہانی بھی سناتی تھیں
کبھی تم اپنے پہلو میں لٹا کر
آسماں کے نت نئے اسرار سمجھاتیں
وہ دیکھو
کہکشاں کہتے ہیں جس کو یہ حقیقت میں
نبی جی کی سواری کے قدم کی دھول ہے ساری
کبھی تم دل نشیں آواز میں لوری سناتی تھیں
مگر میں بھی تمہاری ہی طرح کی ایک ضدی تھی
مجھے کب نیند آتی تھی
تمہاری ریشمی انگلی پکڑ کر میں
انوکھی کہکشاؤں کے سفر پر چل نکلتی تھی
انوکھی کہکشائیں جو گلی کوچوں میں بکھری تھیں
وہ اک نا بینا بڑھیا
جس کے ٹوٹے جھونپڑے میں
شب کی تاریکی میں تم جا کر
نوالہ اپنے ہاتھوں سے کھلاتی تھیں
محلے میں کوئی بچہ جو آدھی رات کو روتا
تو تم بے چین ہی رہتی تھیں جب تک ہو نہ آتی تھیں
تمہیں بچوں سے اور بچوں کو تم سے عشق تھا گویا
کہا جاتا ہے تم دشمن بنانے میں بھی ماہر تھیں
حریص ایسی
کہ کم قیمت کوئی ملبوس نظروں میں نہ لاتی تھیں
غنی ایسی
کہ اک لقمہ نہ مرضی کے خلاف اپنے اٹھاتی تھیں
رعونت اور درویشی
تمہاری ذات کے اک منطقے پر آن ملتے تھے
شکایت رنج بیماری
یہ وہ الفاظ تھے جن کو
لغت سے اپنی خارج کر دیا تھا جانے کب تم نے
سنا یہ ہے تمہیں قرآن بھی اچھی طرح پڑھنا نہ آتا تھا
مگر میں نے تو یہ دیکھا
گلی کے کتنے ہی آوارہ کتے دم دبا کر بیٹھ جاتے تھے
تمہاری ایک صم اور بکمن کی تلاوت سے
تمہارے ہاتھ کے میٹھے ملیدے میں
جو درگاہوں کی خوشبو تھی
میں لکھنا چاہتی ہوں تو
سمٹ کر جذب ہو جاتی ہے کاغذ میں
تمہارے پوپلے ہونٹوں کا نازک خم
اک ایسا حرف ابجد تھا
جسے جتنا میں پڑھتی ہوں
نئے اسرار کھلتے ہیں
روپہلی جلد کی افشاں بکھر جاتی ہے کاغذ پر
کبھی قرطاس پر تم جھریوں میں جھلملاتی ہو
ہمیشہ کی طرح سے میٹھے میٹھے مسکراتی ہو
تو اپنے کھردرے ہاتھوں کو میں حیرت سے تکتی ہوں
سنا یہ ہے تمہیں لکھنا نہ آتا تھا
تمہارے ہاتھ کی کپڑے کی گڑیا
اور گلابی رنگ کی مٹی کی چڑیا
لفظ بن کر جب بھی کاغذ پر چہکتی ہیں
میں چالاکی سے ہنستی ہوں
چلو اچھا ہے لوگوں کو یہی معلوم ہے اب تک
تمہیں لکھنا نہ آتا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.