تو بھی ایسا سوچتی ہوگی
وقت نے ہم کو کس رستے پر لا ڈالا ہے
دونوں
اک ان چاہی ہمراہی کی سولی لے کر
بوجھل بوجھل پاؤں دھرتے جائیں چلتے جائیں
تو بھی آخر انساں ہے
تیرے پاس بھی ارمانوں کا ریشم ہوگا
کبھی کبھی تو تو بھی درد کی سوئی لے کر
کوئی لمحہ کاڑھتی ہوگی
چلتے چلتے کبھی کبھی کوئی بھیگا پل
گئے دنوں کے بحر میں تجھ کو جل تھل کرنا ہوگا
میرے پاس بھی خوابوں کی
کچھ دھجیاں باقی ہیں
میں بھی اکثر چلتے چلتے کھو جاتا ہوں
ان دھجیوں کو جوڑتا رہتا ہوں
خود کو ان میں ڈھونڈھتا رہتا ہوں
کبھی کبھی بستر میں لیٹے
میں نے اپنے اور ترے مابین
ایسے ایسے لامتناہی دریا حائل دیکھے ہیں
جن پر کسی بھی رشتے کا کوئی پل نہیں بننے پاتا
اک ایسی مجبور سی ہمدردی کی ڈوری میں
ہم دونوں بندھے ہوئے ہیں
جس میں ہم نے سمجھوتوں کی
کتنی گانٹھیں ڈال رکھی ہیں
وقت کا جبر بھی کیسا ہے
تجھ کو ''تو'' نہیں رہنے دیتا
مجھ کو ''میں'' نہیں ہونے دیتا
جسموں کی یکجائی کہیں کرتا ہے
روحیں اور کہیں چھوڑ آتا ہے
- کتاب : Quarterly TASTEER Lahore (Pg. 75)
- Author : Naseer Ahmed Nasir
- مطبع : Room No.-1,1st Floor, Awan Plaza, Shadman Market, Lahore (Issue No. 4, Jan To Mar.1998)
- اشاعت : Issue No. 4, Jan To Mar.1998
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.