تو خفا ہو تو بہت دور کہیں
راستے گرد میں اٹتے ہوئے راہی سے بچھڑ جاتے ہیں
خون روتی ہوئی آنکھوں میں کہیں شام اتر جاتی ہے
آسماں کے سبھی جھلمل سے منور تارے
راکھ بن کر کسی تاریک سمندر میں بھٹک جاتے ہیں
پھول جو شاخ کی زینت تھے بکھر جاتے ہیں
اجنبی دیس میں پھر دور بہت دور کہیں
ایک ہنستا سا منور چہرہ
کیسی تاریک اداسی میں اتر جاتا ہے
اس کی جلتی ہوئی آنکھوں کا پگھلتا کاجل
اشک بن کر کہیں تکیے پہ بکھر جاتا ہے
جل ترنگ جیسی ہنسی شوخ تبسم اس کا
ایسا لگتا ہے گھنے درد میں کھو جاتا ہے
اس کی پلکوں پہ مچلتے آنسو
تھک کے پھر ہجر کی دہلیز پہ سو جاتے ہیں
اور وہ کتنے دنوں تک خود کو
نیم تاریک سے کمرے میں مقید کر کے
زہر کے جام پیا کرتی ہے
نیند اور خواب کے مابین سلگتے پل میں
بس تجھے یاد کیا کرتی ہے
اک ترا نام لیا کرتی ہے
اس کی آنکھوں میں ترے نام کو سن کر اکثر
ایسا لگتا ہے ہزاروں ہی دئے جلتے ہیں
اس کی دنیا کے سہانے منظر
نقش بنتے ہیں تری یاد کے سنگ چلتے ہیں
ہنستے گاتے ہوئے جگنو پنچھی
آبشاروں کا ترنم جیسے
اپنی ہستی کا تکلم جیسے
صوت و آہنگ کے سب رنگ ہمیشہ کے لئے
درد و آشوب کی آواز میں ڈھل جاتے ہیں
تو خفا ہو تو بہت دور بہت دور کہیں
ایک لڑکی کے شب و روز بدل جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.