Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تو خفا ہو تو بہت دور کہیں

ایمان قیصرانی

تو خفا ہو تو بہت دور کہیں

ایمان قیصرانی

MORE BYایمان قیصرانی

    راستے گرد میں اٹتے ہوئے راہی سے بچھڑ جاتے ہیں

    خون روتی ہوئی آنکھوں میں کہیں شام اتر جاتی ہے

    آسماں کے سبھی جھلمل سے منور تارے

    راکھ بن کر کسی تاریک سمندر میں بھٹک جاتے ہیں

    پھول جو شاخ کی زینت تھے بکھر جاتے ہیں

    اجنبی دیس میں پھر دور بہت دور کہیں

    ایک ہنستا سا منور چہرہ

    کیسی تاریک اداسی میں اتر جاتا ہے

    اس کی جلتی ہوئی آنکھوں کا پگھلتا کاجل

    اشک بن کر کہیں تکیے پہ بکھر جاتا ہے

    جل ترنگ جیسی ہنسی شوخ تبسم اس کا

    ایسا لگتا ہے گھنے درد میں کھو جاتا ہے

    اس کی پلکوں پہ مچلتے آنسو

    تھک کے پھر ہجر کی دہلیز پہ سو جاتے ہیں

    اور وہ کتنے دنوں تک خود کو

    نیم تاریک سے کمرے میں مقید کر کے

    زہر کے جام پیا کرتی ہے

    نیند اور خواب کے مابین سلگتے پل میں

    بس تجھے یاد کیا کرتی ہے

    اک ترا نام لیا کرتی ہے

    اس کی آنکھوں میں ترے نام کو سن کر اکثر

    ایسا لگتا ہے ہزاروں ہی دئے جلتے ہیں

    اس کی دنیا کے سہانے منظر

    نقش بنتے ہیں تری یاد کے سنگ چلتے ہیں

    ہنستے گاتے ہوئے جگنو پنچھی

    آبشاروں کا ترنم جیسے

    اپنی ہستی کا تکلم جیسے

    صوت و آہنگ کے سب رنگ ہمیشہ کے لئے

    درد و آشوب کی آواز میں ڈھل جاتے ہیں

    تو خفا ہو تو بہت دور بہت دور کہیں

    ایک لڑکی کے شب و روز بدل جاتے ہیں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے