تو
کیا کہوں تجھ کو میں کیا کہہ کے پکاروں تجھ کو
جیسے قاصد کوئی اک پیار میں ڈوبے خط کو
بند دروازے کے پلوں میں پھنسا دیتا ہے
اور خط دیکھ کے اک عشق میں پابند نظر
دل معشوق کی ہر بات سمجھ جاتی ہے
تو کھنچی آتی ہے یوں ہولے سے میری جانب
خانۂ دل میں اسی پیار بھرے خط کی طرح
حسرت چشم مری تجھ میں سمٹ جاتی ہے
ذہن میں عزم نگاہوں میں کئی خواب لیے
شاخ دل میں مری تو رستی چلی آتی ہے
رنگ اور نور فضا کا بھی سنور جاتا ہے
مرے جذبات کو تو عشق سکھا جاتی ہے
کیا کہوں تجھ کو میں کیا کہہ کے پکاروں تجھ کو
تیری آنکھوں کا تصور ترے گالوں کی مہک
جذبۂ روح میں طوفان اٹھا جاتے ہیں
ذہن و دل پر لکھے تاریخ کے پنے پنے
تیری چاہت میں یوں ہی مٹتے چلے جاتے ہیں
آتش عشق سے کھلتا ہوا کندن سا بدن
خودبخود نقش ہوا جاتا ہے جان و دل پر
خود بہ خود پاؤں نکل پڑتے ہیں تیری جانب
باغباں دل کو کوئی جیسے کہ مل جاتا ہے
اور ہر سمت فقط تو ہی نظر آتی ہے
کیا کہوں تجھ کو میں کیا کہہ کے پکاروں تجھ کو
کیوں یہ محسوس مجھے ہوتا ہے لمحہ لمحہ
میری دنیا تری چاہت کے سوا کچھ بھی نہیں
آج تو ہی تو ہے دستور تصور کا مرے
جیسے دنیا میں مرا تیرے سوا کوئی نہیں
میری شاخوں پہ ترے نام کے گل کھلتے ہیں
میرے پتوں میں ترے رنگ ہرے بہتے ہیں
آج پیروں میں تھرکتے ہیں ترے ناز و ادا
میرے نغموں کو تو پر کیف بنا دیتی ہے
کیا کہوں تجھ کو میں کیا کہہ کے پکاروں تجھ کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.