تو نے پوچھا ہے مرے دوست!
تو نے پوچھا ہے مرے دوست تو میں سوچتی ہوں
وہ جو اک چیز ہے دنیا جسے غم کہتی ہے
مجھے تسلیم، مرا اس سے علاقہ نہ رہا
زندگی گویا کوئی سیج رہی پھولوں کی
پھر وہ کیا ہے کہ جو کانٹوں سی چبھا کرتی ہے
میں نے دیکھی ہیں وہ بے مہر نگاہیں اے دوست
جن کی بے گانگی دل چیر دیا کرتی ہے
میں نے گھومے ہیں وہ تنہائی کے آسیب نگر
جن کی سرحد پہ کہیں موت پھرا کرتی ہے
میں نے کاٹی ہیں وہ صبحیں کہ جبیں پر جن کی
تیرگی برف کے مانند گرا کرتی ہے
اپنے آنگن میں ملی وحشت صحرا مجھ کو
غیریت جس میں بگولوں سی اڑا کرتی ہے
کون سمجھے گا کہ نعمت سے بھری جنت میں
اجنبیت کے عذابوں کی ملامت کیا ہے
مہر و الطاف و عنایت کے فسوں خانے میں
پاس رہتے ہوئے دوری کی اذیت کیا ہے
زندگی کی تو علامت ہے یہ احساس مگر
جاں نکالے جو، یہ احساس کی شدت کیا ہے
درد ہر ایک عمومی نہیں ہوتا ورنہ
کوئی کہہ دے تو ہمیں کہنے کی حاجت کیا ہے
زندگی ہو بھی اور احساس کی سولی پہ رہے
دست قدرت کی خدا جانیے غایت کیا ہے
جانے کیوں ہے کہ سحر کاریٔ تخئیل کا دم
روز و فردا میں بدلتے ہوئے گھٹ جاتا ہے
اپنی تعبیر میں ڈھلتے ہوئے افسوں کا سرا
جانے کس طور کف خواب سے چھٹ جاتا ہے
جب بھی لا حاصلی امکان کی منزل دیکھے
رہ میں اسباب تمنا کہیں لٹ جاتا ہے
مل کے بھی کچھ نہیں ملتا ہے جہاں دوست مرے!
اعتبار غم ہستی وہاں اٹھ جاتا ہے
تو نے پوچھا ہے مرے دوست تو میں سوچتی ہوں
اپنا کیا حال بتاؤں جو سمجھ آ جائے!
- کتاب : Gul-e-Dupahar (Pg. 104)
- Author : Saima Asma
- مطبع : Idarah Batool, Sayyed Palaza, Firozpur Road (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.