طور
یہیں کی تھی محبت کے سبق کی ابتدا میں نے
یہیں کی جرأت اظہار حرف مدعا میں نے
یہیں دیکھے تھے عشوۂ ناز و انداز حیا میں نے
یہیں پہلے سنی تھی دل دھڑکنے کی صدا میں نے
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
دلوں میں اژدہام آرزو لب بند رہتے تھے
نظر سے گفتگو ہوتی تھی دم الفت کا بھرتے تھے
نہ ماتھے پر شکن ہوتی نہ جب تیور بدلتے تھے
خدا بھی مسکرا دیتا تھا جب ہم پیار کرتے تھے
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
وہ کیا آتا کہ گویا دور میں جام شراب آتا
وہ کیا آتا رنگیلی راگنی رنگیں رباب آتا
مجھے رنگینیوں میں رنگنے وہ رنگیں سحاب آتا
لبوں کی مے پلانے جھومتا مست شباب آتا
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
حیا کے بوجھ سے جب ہر قدم پر لغزشیں ہوتیں
فضا میں منتشر رنگیں بدن کی لرزشیں ہوتیں
رباب دل کے تاروں میں مسلسل جنبشیں ہوتیں
خفائے راز کی پر لطف باہم کوششیں ہوتیں
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
بہے جاتے تھے بیٹھے عشق کے زریں سفینے میں
تمناؤں کا طوفاں کروٹیں لیتا تھا سینے میں
جو چھو لیتا میں اس کو وہ نہا جاتا پسینے میں
مئے دوآتشہ کے سے مزے آتے تھے جینے میں
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
بلائے فکر فردا ہم سے کوسوں دور ہوتی تھی
سرور سرمدی سے زندگی معمور ہوتی تھی
ہماری خلوت معصوم رشک طور ہوتی تھی
ملک جھولا جھلاتے تھے غزل خواں حور ہوتی تھی
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی
نہ اب وہ کھیت باقی ہیں نہ وہ آب رواں باقی
مگر اس عیش رفتہ کا ہے اک دھندلا نشاں باقی
- کتاب : intekhab-e-sukhan (Pg. 123)
- Author : Ibne Kanwal
- مطبع : Kitabi Duniya (2005-2008)
- اشاعت : 2005-2008
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.