ٹائپسٹ
دن ڈھلا جاتا ہے ڈھل جائے گا کھو جائے گا
ریگ اٹی درز سے در آئی ہے اک زرد کرن
دیکھ کر میز کو دیوار کو الماری کو
فائلوں، کاغذوں، بکھری ہوئی تحریروں کو
پھر اسی درز سے گھبرا کے نکل جائے گی
اور باہر وہ بھلی دھوپ، سنہری کرنیں
جو کبھی ابر کے آغوش میں چھپ جاتی ہیں
کبھی پیڑوں کے خنک سایوں میں لہرائی ہیں
پاس ہی پیڑ پہ ہدہد کی کھٹا کھٹ کھٹ کھٹ
اور نڈھال انگلیاں کہتی ہیں تھکا تھک تھک تھک
محض ابجد کی بدلتی ہوئی بے حس ترتیب
لفظ ہی لفظ پہ احساس نہ ارماں کوئی
اور ارمان وہ بھٹکے ہوئے راہی جن کے
ساتھ ساتھ آتے ہوئے بھوت کی صورت خدشے
سرد ہاتھوں سے کبھی پاؤں جکڑ لیتے ہیں
اور کبھی آہنی دیوار اٹھا دیتے ہیں
میں نے دیکھا ہے کہیں گھر کے جب آئے بادل
چیخ اٹھے لوگ کہ اب کھیتیاں لہرائیں گی
میں نے دیکھے ہیں تمناؤں کے بنجر انجام
کس توقع پہ سنورنے لگی پھر سوچتی شام
کس کی آنکھوں کی چمک راستہ دکھلاتی ہے
پھر وہی قمقمۂ شب کی طرح خندۂ لب
کہے جاتا ہے: چلی آؤ، چلی بھی آؤ
لیکن اس خندہ کے اس پار وہی پل کی طلب
''یوں تو میں صرف تمہارا ہوں مگر کیا کیجے
بعض مجبوریاں....'' مجبوریاں! میں جانتی ہوں
جانتی ہوں کہ گئے وقت کو کس نے روکا
وقت آتا ہے گزر جاتا ہے بس دور ہی دور
ایک دن وقت بڑے چین سے سو جائے گا
دن ڈھلا جاتا ہے ڈھل جائے گا کھو جائے گا
- کتاب : sar-e-shaam se pas-e-harf tak (Pg. 160)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.