اداس شام کی ایک نظم
وصال رت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش ہے
کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کر دیا ہے
تمہارے ہاتھوں کا لمس جب بھی مری وفا کی ہتھیلیوں پر حنا بنے گا
تو سوچ لوں گی
رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے امتحان میں ہے
ہمارے باغوں سے گر کبھی تتلیوں کی خوشبو گزر نہ پائے تو یہ نہ کہنا
کہ تتلیوں نے گلاب رستے بدل لیے ہیں
اگر کوئی شام یوں بھی آئے کہ جس میں ہم تم لگیں پرائے
تو جان لینا
کہ شام بے بس تھی شب کی تاریکیوں کے ہاتھوں
تمہاری خواہش کی مٹھیاں بے دھیانیوں میں کبھی کھلیں تو یقین کرنا
کہ میری چاہت کے جگنوؤں نے
تمہارے ہاتھوں کے لمس تازہ کی خواہشوں میں
بڑے گھنیرے اندھیرے کاٹے
مگر یہ خدشے، یہ وسوسے تو تکلفاً ہیں
جو بے ارادہ سفر پہ نکلیں
تو یہ تو ہوتا ہے یہ تو ہوگا
ہم اپنے جذبوں کو منجمد رائیگانیوں کے سپرد کر کے
یہ سوچ لیں گے
کہ ہجر موسم تو وصل کی پہلی شام سے ہی
سفر کا آغاز کر چکا تھا
- کتاب : Mohabbatein Jab Shumar Karna (Pg. 53)
- Author : Noshi Gilani
- مطبع : Shirkat Printing Press Lahore (1997)
- اشاعت : 1997
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.