افق در افق
سمٹتے پھیلتے پیہم سلگتے اور دھندلاتے
افق جب پے بہ پے ابھریں افق جب پے بہ پے ڈوبیں
تو اپنا کام کیا ہے ناؤ اپنی کھیتے رہنا ہے
افق محراب در محراب اپنے دوار پھیلائے
تعاقب کے اشارے برق بن کر کوند جاتے ہیں
بدل جاتی ہیں راہیں دوریاں بڑھتی ہی رہتی ہیں
کبھی بے کارواں بے مشعل و شور جرس چلنا
قیامت ہی سہی پھر بھی ہمیں چلنا ہی پڑتا ہے
کہ چلنا ہے مقدر ساتھ رہنا اک عنایت ہے
جسے بن مانگے دیتے اور لے لیتے ہیں بن پوچھے
ذرا سی بات لیکن آبگینے ٹوٹ جاتے ہیں
ذرا سی بات پہروں دل دکھاتی ہے ستاتی ہے
تغافل گو بھلا لگتا ہے پھر بھی جی تو جلتا ہے
ہوائے انتشار اک پل میں ترتیبیں زمانوں کی
الٹ دیتی ہے کیسے اور قضا و قدر کے ہاتھوں
یقیں کے جگمگاتے مسکراتے سورجوں سے پر
افق گرد و غبار راہ بن کر ڈوب جاتے ہیں
وہ دیکھو پو پھٹی اندھیارے جادوں کے شگافوں سے
ہم اس کو مرحمت کا نام دیتے ہیں ہر اک شکوہ
یہاں آ کر پشیماں ہونے والوں کو مناتا ہے
الاؤں کے قریں بیٹھے ہوئے کتنی خنک شامیں
گزر جاتی ہیں جیسے خواب گزرے دل تڑپتا ہے
کہ شامیں شبوں میں اور شبیں اجلے سویروں کے
تسلسل میں گندھی طول ابد عمر خضر پاتیں
مگر یہ دائرہ در دائرہ سچائیاں توبہ
ہمیشہ راہ میں آتی رہیں تنہائیاں دینے
اگر ان کا لہو جم جائے اپنی آستینوں پر
تو بجھ جائیں یہ شعلے جاوداں روشن الاؤں کے
افق کے نقش اور اپنی شبیہیں سب ہی مٹ جائیں
اثاثہ رہ گزاروں کا تھکن اول تھکن آخر
نظارے چشم بینا میں جو آنسو بن کے رہتے ہیں
کسک جن کی چھپائے سے نہیں چھپتی وہ سب کانٹے
الاؤں کے قریں اکثر جنون خود نمائی میں
کسی اک گیت میں اک داستاں میں ڈھلنے لگتے ہیں
یہ غم کتنا غنیمت ہے یہ غم ہستی کی قیمت ہے
کہ ہم اس کو سنانے اور سننے میں بہل جائیں
افق کے اس طرف اور اس طرف بکھرا ہوا امکاں
جسے ہم راہ کہتے تھے وہ اک سپنا تھا سودا تھا
نوائے ناشنیدہ کے سویروں تک پہنچنے کا
ابد آشام تنہائی کی وادی پار کرنے کا
الاؤں کے قریں آنے کا اک پیارا بہانہ تھا
وہ رقص نکہت گل تھا کہ گردش میں زمانہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.