امید
پرسوں نے کل کو پالا تھا
پروان چڑھایا کل نے آج
اور آج کی کوکھ سے فردا جنم لے رہا ہے
جیسے زمین نے سورج سے زندگی پائی تھی
اور چاند کو زمین سے رزق پہنچ رہا ہے
سورج زمین کا ماضی اور چاند اس کا مستقبل ہے
جیسے جمادات سے نباتات سے حیوانات کے بعد انسان پیدا ہو گیا
تو زندگی کا سفر یہاں پہنچ کر رک جائے گا کیا
کیا نٹشی کا انسان بالا ''بقول زردشت'' کے اوراق ہی میں دفن ہو کر رہ جائے گا
کیا اقبال کا شاہین قصر سلطانی کے گنبد ہی میں بسیرا کر لے گا
کیا قرآن کے مطابق انسان کا منتہیٰ خدا نہیں
تو کیا ہم خدا کی جانب محو سفر ہیں
اور جب ہم خدا تک پہنچ جائیں گے تو کیا زندگی کا سفر ختم ہو جائے گا
اور کیا اس مقام پر وقت تھم جائے گا تاریخ تمام ہو جائے گی
یا وہاں سے ایک اور جہان شروع ہوگا
ایک نیا عالم ایک نئی زندگی
ایک نیا خدا؟
ویسے اگر خدا ہی ابتدا اور خدا ہی انتہا ہے
تو کیا ابتدا اور انتہا کی تخصیص بے معنی نہیں
جیسے جب دائرہ مکمل ہو جائے تو اس کی ابتدا اور انتہا دونوں مٹ جاتی ہیں
تو کیا حقیقت ایک کامل دائرہ ہے ابتدا اور انتہا کے بغیر
اگر ایسا ہے تو حرکت کہاں سے آئی
کہیں یہ دائرہ پھیلتا اور سکڑتا تو نہیں رہتا
کیا وقت کا رخ ماضی سے حال سے مستقبل کی جانب ہی رہتا ہے
یا مستقبل سے حال سے ماضی کی طرف بھی ہو سکتا ہے
کیا انسان سے حیوانات سے نباتات سے جمادات کو لوٹنا بھی ممکن ہے
اور کیا اب ایسا ہی تو نہیں ہو رہا
ظاہر ہے انسان پر خدا کا رنگ تو چڑھ نہیں رہا
البتہ حیوانی صفات نے ضرور گھر کر لیا ہے اس میں
شہر انسان سے شہر خدا کی جانب تو ہم جا نہیں رہے
کہیں ہم قدم بہ قدم جنگل کی طرف تو نہیں پلٹ رہے
کیا ہماری ماضی پرستی ہمیں
حیوانات سے نباتات سے جمادات تک تو نہیں لے جائے گی
کیا ہم پیچھے مڑ کر دیکھنے کے جرم میں پتھر کے ہو کر تو نہیں رہ جائیں گے
لیکن کہتے ہیں کہ ناامید نہیں ہونا چاہیئے کہ نا امیدی کفر ہے
آخر جمادات سے پہلے بھی تو کچھ موجود ہوگا
بھئی، خدا تو تھا اس وقت بھی
اور اگر خدا ہی ہمارا منتہیٰ ہے
تو آگے بڑھ کر نہ سہی
پیچھے مڑ کر سہی
ہم اسے پا ہی لیں گے
بس ایمان مضبوط ہونا چاہیئے
''فنا'' ''بقا'' اور ''لقا ''کی منزلیں ضرور آئیں گی
ہم پر امید ہیں
- کتاب : din kaa phool (Pg. 167)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.