امید
امیدیں دکھ دیتی ہیں
کیوں کہ امیدوں کی چھینی سے
ہی توڑنا پڑتا ہے اپنے ماضی کے بت کو
آگے بڑھنے کے لئے
اپنوں کے بغیر جینے کی امید کی باتیں بھی
دکھ دیتی ہیں
ایسی کوئی نصیحت بھول سے بھی مت دینا
امید وہ رسی ہے
جس سے انسان اندھیرے میں ٹنگا ہوا ہے
یہ تکلیف دہ ہے
لیکن اس رسی کا کٹ جانا
اندھیری کھائی میں گرنے جیسا ہے
امید کرنا مستقبل کا چہرہ بنانے جیسا ہے
مستقبل کو جاننا انسان کے بس کا نہیں
امید کرنا اپنے لیے ایک ہولناک قید تیار کرنے جیسا ہے
امید پھولوں کو بہار سے نہیں ہوتی
بس پھول کھل جاتے ہیں ساون کے آنے پر
ساون کی فطرت ہے بارش اور ٹھنڈک لانا
امید کرنے سے ساون کی فطرت بدل نہیں سکتی
تم اپنے سے ملنے والے لوگوں سے کوئی
امید مت رکھنا
بس ان کی فطرت جان لینا
امید ایک سراب ہے
انسان کا وجود ایک صحرا
اور پیاس ہمیں چلائے جا رہی ہے
امید کے سراب کی جھیل کی طرف
سفر جاری ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.