امید
وہ بچہ راج دلارا ہے جو ماں کی آنکھ کا تارا ہے
قدرت نے اس کو نکھارا ہے فطرت نے اس کو سنوارا ہے
وہ گود میں پل کر بڑھتا ہے یا اک سانچے میں ڈھلتا ہے
کس پیار سے ماں کو تکتا ہے جب گھٹنوں کے بل چلتا ہے
ہے باپ کا دل اس پر صدقے سو جان سے ماں اس پر واری
رہ رہ کے یہ آس لگاتے ہیں کب مکتب کی ہو تیاری
امید ہے یہ گھر والوں کو جس دم یہ جواں ہو جائے گا
کنبے میں عزت پائے گا ہر بگڑی کو یہ بنائے گا
وہ بیکس قابل عبرت ہے جو رنج اٹھائے غربت میں
ہو پیچھے قافلے والوں سے اور بھٹکے راہ مصیبت میں
رفتار بتاتی ہے اس کی امید سے تسکیں پائے گا
وہ شام کے ہوتے منزل پر گر پڑ کے پہنچ ہی جائے گا
گمراہ نہ ہوں بھولے بھٹکے امید شعاع ماہ بنے
ہمت سے کانٹا پھول بنے ہر ذرہ چراغ راہ بنے
امید سے ہیں زندہ ارماں امید سے دنیا قائم ہے
امید کی رنگا رنگی سے گلشن کا سراپا قائم ہے
امید ہے ایسی پھلواری جس میں نہ گزر ہو صرصر کا
امید ہے اک ایسا دریا جس میں ہے خزانہ گوہر کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.