سائے بڑھنے لگے اور جیسے کہیں رات ہوئی
دیر تک بیٹھے رہے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے
پھر دل زار نے چپکے سے انہیں چوم لیا
ہونٹ تھرائے کہ کس طرح کی یہ بات ہوئی
پیاری آنکھوں نے کہا ہم تو بہت ہیں مخمور
کوئی ناشاد رہے ہم تو ابھی ہیں مسرور
ذہن شاعر بھی تخیل میں ذرا جھوم لیا
بات اتنی ہی ہوئی تھی کہ وہ آنکھیں بولیں
''بارہا تم نے ہماری ہی قسم کھائی ہے
سچ کہو جرأت دل کیسے کہاں پائی ہے
ہم پہ صدقے کیا کرتے ہو دل و جاں لیکن
راز ہیں کون سے پنہاں یہ سمجھتے بھی ہو!
کس طرح تم سے کریں عہد وفا کی باتیں
اجنبی ہوتا ہے مہماں یہ سمجھتے بھی ہو!
ڈوبنے لگتے ہو جب یاس کی گہرائی میں
بیکسی ہم سے تمہاری نہیں دیکھی جاتی!
جام پہ جام چڑھاتے ہو کہ غم کچھ بھی نہیں
بے خودی ہم سے تمہاری نہیں دیکھی جاتی!
کیوں کہا کرتے ہو دنیا ہے یہ ہم کچھ بھی نہیں
ایسے لمحوں میں بھلا کس نے سنبھالا ہے کہو
غم کدے سے تمہیں کس طرح نکالا ہے کہو!
اپنے سینے میں بھی جذبات کے طوفاں ہیں مگر
ہم تمہاری ہی طرح بے سر و ساماں ہیں مگر
حسن کے آج ہر اک گام پہ سودائی ہیں
اپنی نظریں بھی تو اب باعث رسوائی ہیں''
ذہن شاعر نے یہ باتیں بھی سنیں کچھ نہ کہا
ہاتھ خود بڑھ کے نئی طرح سے ہاتھوں سے ملے
آنکھوں آنکھوں میں محبت کی نئی بات ہوئی
سائے بڑھنے لگے اور جیسے کہیں رات ہوئی
- کتاب : shahr-e-aarzu(rekhta website) (Pg. 133)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.