اس سے کہہ دو
اس سے کہہ دو کہ وہ اپنے دکھتے ہوئے بازوؤں کو یوں ہی تہ رکھے
راہداری کے پرلے سرے پر وہ کس سے ملے گی
کوئی خواب راتوں کی بوجھل ہوا میں کسی پر سمیٹے پرندے کا خواب
کوئی خواب بیمار بستر پہ بجھتے سمے
رات کے نرم پاؤں گزرنے کا خواب
بند کمرے میں دوپہر بھر صرف اک زیر جامہ میں سونے کا خواب
یا کوئی آنگنوں میں اترتی ہوئی آنکھ کی کونپلوں سے الجھتی ہوئی دھوپ
بھک سے اڑ جانے والی سرنگوں کی مانند بچھتی ہوئی دھوپ
منہ اندھیرے یہ دانتوں تلے کرکراتی ہوئی دھوپ
اس سے کہہ دو کہیں بھی کوئی خواب ہو دھوپ ہو
نصف شب اپنے شوہر کے پہلو سے اٹھتی ہوئی
نیم تاریک زینے سے تھم تھم اترتی ہوئی
ایک بے انت
لمبی مسافت پہ پھیلی ہوئی راہداری کے پرلے سرے پر وہ کس سے ملے گی
اس سے کہہ دو دریچے کے پردے گرا دے
کہ کھڑکی سے آتی ہوئی روشنی گرد ہی گرد ہے
مگر طاق بھی اپنی نم خوردگی میں بڑا زہر ہے
اس سے کہہ دو کہ وہ اپنے دکھتے ہوئے بازوؤں کو یوں ہی تہ رکھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.