وعدہ
عورت ایک تصور ہے ایک خواب ہے
رہ رہ کے اپنی سمت کھینچتا ہے جو
بے سود ارمانوں میں نسل آدم کے
پھر سے ایک ابال جو طاری کرے
زمانہ بھر کی پستیوں میں
ایک خلل پیدا کرے
نسیم صبح کا ایک نرم جھونکا
جیسے بے قرار دل کو چھو کے
پاس ہی ٹھہر جائے
رفتہ رفتہ روح میں اتر جائے اور پھر
پارینہ گزر گاہوں پر بھٹکتی مایوس روحوں کو
ماضی کے غار کی سیاہی تک محدود سب نگاہوں کو
تا حد نظر روشنی ہی روشنی نظر آئے
ہر نظر امید ہی سے پر نظر آئے
یہ نظم وہ لمحہ ہے جس دم
قافلے سے دشت میں بچھڑے مسافر کو
دور کہیں دور مگر کہیں
گھنے درختوں کے اس طرف
بچھڑے پرانے دوست کی مانند
ایک کوس مینار دکھ گئی ہو
راستوں کی قید سے بے فکر بھی ساکت بھی مگر
ہر سفر کو سمت اور امید جو عطا کرے
تھکے ہارے ذہن کو ایک آس کا ستارا دے
پر آبلہ پاؤں میں نئی تازگی
قدموں میں ایک پختگی پیدا کرے
فریاد نہیں ہے یہ ایک پکار ہے
فقیر کی سدا نہیں
بھگوان کی نیاز نہیں
ایک بس وعدہ ہے یہ
ایک عظیم انسان کا انسان سے
ایک وعدہ مانگا ہے
ایک عظیم انسان نے انسان سے
ایک وعدہ جس کا عمل
انسانیت کی عظمت کی سند ہوگا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.