وہ برفانی رات
بادام اخروٹ اور ستو
سرما کا شہد اور ساگ کی خوشبو
اور اک لوک کہانی میں گم
آگ کے گرد
میں اور تم
آؤ چلیں
چرخے کی آواز میں ڈوبی
اس بستی میں
شام جہاں پر ایسے اترے
جیسے کسی بیمار بدن میں
جیون رس
برف کی رت کا پہلا دن
کتنا سفید اور آزردہ ہے
دریا اپنی مجبوری کا گدلا پانی
اور ہماری ناداری کے
آنسو اپنی پشت پہ رکھے رینگ رہا ہے
اور سڑک پر
برسوں پرانے لوگ نکل کر چلتے ہیں
ان کی آنکھیں
ایک پرانی یاد سے بوجھل
اور چہروں پر
کوئی گہرا خوف جما ہے
دھانی گھاس کے جوتوں میں یہ
اپنے جلتے پاؤں پہن کر
اور ہونٹوں پر
ہجر کے گیتوں کو سلگا کر
نئے سفر پر نکلے ہیں
آؤ چلیں
ان گلیوں کی دشواری میں
جو پنجابی اور حاجی پیر کے اندر کھلتی ہیں
جن کے پار
ایک الاؤ سا جلتا ہے
جن میں چلنے والا جیسے
گہرے خواب میں چلتا ہے
آؤ چلیں
اور چل کر دیکھیں
جسم کے داغ اور روح کے سوگ
آگ جلوں نے کب دیکھے ہیں
برف میں جلتے لوگ
لوگ
جنہوں نے
برف رتوں کا ورثہ پال کے
کس جوکھم سے
ماہ و سال کے
اندر رہنا سیکھ لیا تھا
ان پر کیسا وقت پڑا ہے
آؤ چلیں اور
ایک سوال کی شمع جلا کر
اس برفانی رات میں اتریں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.