وہی درندہ
وہی درندہ
مجھے جنگل سے شہر لے آیا
یہاں اس نے
مسکرانا سیکھا
جو کرتا رہا
میں دیکھتا رہا
اور اپنے اندر حیرتیں جمع کرتا رہا
اس نے ایک عورت کی چھاتیاں
بھنبھوڑ ڈالیں
جس نے اس کے عضو تناسل
اور دل کو تھکا دیا ہے
اس نے آسمان کی طرف دیکھا
اور تھوک نگل لیا
وہاں اسے
کوئی نظر نہیں آیا
مجھے پتا نہ چلتا
وہ لفظوں میں چھپ جاتا
وہیں سے نحوست سے مسکراتا
دکھائی پڑتا
کبھی کبھی
میں نے اس سے
جان چھڑانی چاہی
جب میں پھول لے رہا تھا
اس لڑکی کے لیے
جس کا دل
ایک پھول سے بھی زیادہ
نرم اور ہلکا تھا
میں نے اس سے
جان چھڑانی چاہی
جب دھوپ دیواروں سے
اترنے کا نام نہیں لیتی تھی
اور لمحے اونگھتے تھے
میں ان دھوپ بھری دیواروں میں
اسے دفن کرنا چاہتا تھا
میں نے اس سے جان چھڑانی چاہی
جب میں نے پہلی بار
سچ بولنا سیکھا
یہ اسے پسند نہیں آیا
اس نے کرودھ میں
آئینہ ایجاد کیا
اور میرے سامنے رکھ دیا
میں نے دیکھا
وہی درندہ
میں خود ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.