وحشتیں ادھم مچاتی ہیں
وہ جب چاہتی ہیں ہمیں ہلکان کرنے آ جاتی ہیں
کبھی دروازوں سے کبھی کھڑکیوں سے
کبھی روشن دان کی اس روشنی سے
جن سے ہمارے بچے کبھی کھیلتے تھے
ہمیشہ افسردگی کی چادر ہم یوں بھی اوڑھے رہتے ہیں
اور منہ چھپائے پڑے رہتے ہیں
کہیں کوئی نئی واردات ہماری تاک میں نہ ہو
کہیں کوئی زبان ہم کو ڈس نہ لے
لیکن اگر ہم بچ بھی جائیں تو کیا
یہ وحشتیں رات اور دن
کبھی لفظوں میں چھپ کر اندھا دھند ہم پر وار کرتی ہیں
کبھی اپنے ساتھ جمگھٹوں میں نفرت کی کوئی نئی قسم کی
زہریلی گیس بن کر ہم پر چھوڑتی ہیں
ان کا پورا ارادہ ہے
ہم موت کے منہ میں چلے جائیں
بہت دنوں بعد ہم نے ان وحشتوں کو دریافت کیا ہے
یہ کیوں ہیں اور کیا چاہتی ہیں
ان گنت ناموں کے ساتھ یہ ہمارے بدن کو کھرچتی ہیں
ان گنت لفظوں کی کلہاڑیوں سے یہ ہمارے سر کو نشانہ بناتی ہیں
اور ہم ہیں کہ دم سادھے آنکھیں موندے
ان کے ارادوں کو پسپا کرنے کی آس میں پڑے رہتے ہیں
یہ وحشتیں اکثر ہمارے بدن کے کسی حصے میں داخل ہو کر
ہمیں ڈراؤنے خواب دکھاتی ہیں
بچاؤ کی کوئی صورت نہ پا کر
ہم تنہائی کی اس کھردری سڑک پر نکل جاتے ہیں
جہاں ہم دلاسا دیتے ہیں خود کو
چلو آج تو ہم بچ گئے
دور ایک کمرے میں
بچھے ہوئے ایک بستر پر
تکیے پر سر رکھ کے سو گئی تھی
خواب دیکھتی ہوں
دور دراز جانی پہچانی سی سڑکیں ہیں
جانے پہچانے لوگ
کھلے ہوئے ہیں بازار
پیڑ جھوم رہے ہیں ہوا کے ہاتھوں
میں نے دیکھا وہاں تو عجب سا حال ہے
سچ ان پیڑوں کی ٹوٹی شاخوں میں اونگھ رہا ہے
جھوٹ اچھل کود میں لگا ہوا ہے
میں نے جانا
سچ کو جھوٹ نے بے ہوشی کا ٹیکہ لگا دیا ہو
جبھی تو پھدک رہا ہے
بے شرمی سے
کیا ہے بس
ریل پیل ہے بے دردی کی
پالتو کتے بھونک رہے ہیں
بھوکے بچے سڑک پہ کوڑے کے ڈھیر سے کھانا ڈھونڈھ رہے ہیں
نیند ٹوٹ گئی
میری آنکھیں ایک لمبے سفر کے بعد بھی
نہیں بھولیں
ڈراؤنے خواب دیکھنا
میرے کمرے کے بستر سے لے کر
اس بستر تک
جو میرا نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.