وجد
زندگی گھومتی چکراتی ہے بل کھاتی ہے
اور پھر وجد کے نقطے پہ ٹھہر جاتی ہے
دائرے چار طرف رقص کناں رہتے ہیں
دل آوارہ ٹھہر جائے جہاں زاد رکے
رقص کے دن پہ چڑھی گردش حالات کی دھوپ
رقص بے خود میں مرا شوق جنوں شامل ہے
جھومتا ناچتا رہتا ہے زمانہ سارا
تتلیاں مور پرندے تو کہیں آب رواں
شمع کی آنکھ سے بہتے ہیں مسلسل آنسو
اور شعلے کی لپک پر کہیں مہکے روٹی
تیز کرنوں سے کسی کوہ کی پگھلے چاندی
دھوپ اور چھاؤں میں لپٹے ہوئے چاروں موسم
اک تماشا ہے کہ ظاہر ہے نظر کے آگے
دھوپ کے رنگ کو لازم ہے سیاہی شب کی
اور سیاہی تو نہیں بھید سے خالی تشنہؔ
لیکن اس بھید کو پانے کی کہاں کوشش کی
ایک لمحے میں اسی بھید کی لو شامل ہے
اور وہی وصل کا لمحہ تو مرا حاصل ہے
کوئی اس پل سے کہو ہوش میں لائے مجھ کو
نیند آتی ہے مگر عشق جگائے مجھ کو
آنکھ کی پتلی سیہ رنگ دکھائے مجھ کو
رقص و آہنگ ہی انسان بنائے مجھ کو
زندگی چاک مسلسل پہ پڑی گھومتی ہے
جسم روٹی کے نوالوں میں پھنسائے مجھ کو
تیرے قرآن میں بہتا ہوا سرگم مخفی
اور زمزم کے لئے خاک رگڑتی ایڑی
دور مندر میں کلیساؤں میں بجتی گھنٹی
گھومتا جائے فلک اور یہ زمیں کی چکی
اور اس سب میں مجھے گھر کا بنا کر قیدی
نور کرتے ہو عطا مجھ کو بنا کر مٹی
آنکھ سوتی ہے تو باطن کو جگا دیتے ہو
تم پلاتے ہو مگر پیاس بڑھا دیتے ہو
اور تشنہؔ جو کبھی وجد میں اللہ لکھے
تم اسی وجد کے نقطے کو مٹا دیتے ہو
اور نئے رنگ کے گلزار کھلا دیتے ہو
وجد کے نقطے پہ یہ رقص جہاں رکتا ہے
وجد کا نقطہ مٹا دو تو وحد بچتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.