۱
ہم کسی اور ستارے سے یہاں آئے تھے
یاد رکھنا تھی یہی بات مگر بھول گئے
ہم نے جب چاند پہ رکھا تھا قدم
یاد آیا تھا ہمیں اس کا بدن
ہم مگر اپنوں کی باتوں میں مگن
وادیٔ یاد کی گہرائی میں اترے ہی نہیں
کاش اس لمحے کی آواز کو ہم سن لیتے
پھر ہمیں وقت کے چنگل سے رہائی ہوتی
غار کے پار سفیدی نہ سیاہی ہوتی
۲
زمیں کا زمانہ ہے یہ
ہم زمیں بوس ہوئے
سبز رنگوں کے سراب
نیلگوں سطح آب
ہم فلک بوس ہوئے
اور یہ بھول گئے
تھے کبھی اپنے بدن پر تیرے قدموں کے نشاں
سبز پتوں کے سوا
اور بھی رنگ تھے رنگوں سے سوا
کون سا کیف تھا ان چیزوں میں
جن کی تم روح تھے ہم پیکر تھے
نور ہو سایہ ہو کہ تاریکی ہو
لاکھ میں جسم سے اور روح سے آراستہ پیراستہ ہو کر اٹھوں
بن بھی جائے یہ زمیں
میری کرشمہ گہ آلات گری
تو مگر اور ہی کچھ چیز ہے
تو نہ نوری ہے نہ ناری ہے نہ خاک آبی
تو نہ شمسی ہے نہ ارضی ہے نہ ہے مہتابی
تو نہ مریخ سے زہرہ سے نہ سرطان سے ہے
تیرے قدموں کے نشاں اور کہیں دیکھے تھے
جسم قد شکل یہ اطوار یہ تیور تیرے
تیری بو باس لباس پھول یہ زیور تیرے
خامشی تیری یہ آواز یہ چلنا تیرا آنا جانا
یہ ستاروں کا غبار
سلسلہ ہے یہ اداؤں کا
کہ ہے جسم کے پردوں پہ تیری روح کے نغموں کا خمار
اک نئی شان کا ہر روز نکھار
اور پھر سوچتا ہوں
تو تو کچھ اور ہے ان چیزوں کا مجموعہ نہیں
تو تو کچھ اور ہے ان سے بھی سوا
ان کے ہونے کا نہ ہونے کا بھی پابند نہیں تیرا وجود
تیرے قدموں کے نشاں اور کہیں دیکھے تھے
تیرے قدموں سے تو ہے آج بھی شاداب مرا سارا وجود
یاد رکھنے کی یہی بات تھی ابن آدم
تم نے جب چاند پہ رکھا تھا قدم
تم کسی اور ستارے سے یہاں آئے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.