آسماں پر گرم سورج کے بھیانک قہقہے
دوڑتی تھیں زہر لہریں سانس کھل کر کون لے
آگ کے دریا رواں سب شاہراہیں راستے
جل رہی تھیں دھوپ کی بارش میں ساری کھیتیاں
سر اٹھائے زرد رو سوکھی نکیلی جھاڑیاں
اور ان کے درمیاں
ناچتی تھیں بے حیا کم ظرف ننگی ڈائنیں
چیخ بد روحیں سنیں کیا طے کیا چپکے رہیں
بے زبانی کی وساطت سے کہیں
جوڑ کر دست سوال
اے خدائے ذوالجلال
ختم تجھ پر ہر کمال
ساعتیں پھیلا رہی ہیں موت کی نیندوں کا جال
جاگتی جیتی مگر اک تیری ذات
روز روشن ہو کہ رات
اک فقط تجھ کو ثبات
کون دے گا ماسوا تیرے نجات
ابر بن کر سایہ کر دے
سبز کر دے کھیتیاں
آ ہماری سوچ میں آ
تو ہمارے ہاتھ ہو جا تو زباں
خالق ارض و سما
نرم مٹی کی ردا سر سے ہٹائے
دیکھتی ہیں کونپلیں پلکیں اٹھائے
اب کسانوں کا تصور چھو رہا ہے بالیاں
مسکرا آنکھیں ملا شرمائے ہیں گھر والیاں
سج رہی ہیں تھالیاں
بج رہی ہیں تالیاں
ہنس رہی ہیں گا رہی ہیں سالیاں
اب دعائیں ہو گئی ہیں میٹھی کھٹی گالیاں
آسماں پر اے خدا تیرا جلال
اور زمیں میری ہوئی گہوارۂ امن و اماں
پاک بد روحوں سے ہے میرا جہاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.