والسلام
پیارے بیٹے ابراہیمؔ
تمہیں شکایت ہے کہ ایک عرصے سے میں نے کچھ لکھا لکھا یا نہیں
اقبالؔ نے کہا تھا
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
پھر فیضؔ نے کہا تھا
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بہت اکساتا ہوں اپنے آپ کو
لیکن زبان کی گرہ کھلتی ہی نہیں
اور دل کا شعلہ لب معجز بیاں پر آتا ہی نہیں
ہائے ناصرؔ کاظمی
بس غالبؔ کی طرح کان لپیٹ کر بیٹھ جاتا ہوں
کھلا کر فائدہ عرض ہنر میں خاک نہیں
بولوں گا تو سنے گا کون
کسی کے کان میں پڑ بھی گئی تو سمجھے گا کون
آج کل تو بڑے بڑے کھڑ پینچوں کی حالت یہ ہے
کہ کوئی سنتا ہے تو سمجھتا نہیں
کوئی سمجھتا ہے تو سنتا نہیں
اور بہت ہیں جو سنتے بھی نہیں سمجھتے بھی نہیں
پھر میرے پاس نالہ کو ہے کیا
کون سی ضروری بات ہے جو ان کہی رہ گئی ہے
سارے فلسفے سارے نظریے سارے مسائل تو بیان ہو چکے
شاعروں نے لطیف سے لطیف جذبے کو سو سو طرح سے باندھ ڈالا
موسیقاروں نے نازک سے نازک احساس کو پابند لے کر دیا
نہ کسی کے لیے کچھ کہنے کو باقی ہے
نہ کسی میں سننے کا یارا ہے
یہی غنیمت ہے کہ دل بھر آئے تو منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا لیں
آخر جب خدا نے ابھی خدائی نہ بنائی تھی
تو اکیلے میں کیا کرتا ہو وہ
خود ہی بولتا ہوگا خود ہی سنتا ہوگا وہ
میرا یہ مقام تو نہیں لیکن حالت یہی ہے
خود ہی بولتا ہوں خود ہی سنتا ہوں
بس یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہا کیا ہے اور سنا کیا ہے
ویسے یہ سمجھے سمجھانے والی بات بھی ٹیڑھی خیر ہے
غالبؔ نے کہا تھا
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کریے کوئی
اور اس سے پہلے میر دردؔ نے بہت درد سے بتایا تھا
سمجھتے تھے نہ مگر سنتے تھے ترانۂ درد سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا نہ گیا
والسلام
- کتاب : din kaa phool (Pg. 63)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.