بیس صدیوں ہیولیٰ ہو تم
بیس صدیوں کا پر اسرار ہیولیٰ جس پر
صرف بے درد ہواؤں نے زباں پھیری تھی
اب مرا ہاتھ ہے اور ہاتھ کی یہ زندہ حرارت شاید
تم کو محسوس ہو بدلے ہوئے موسم کی طرح
تم یہ سمجھو کہ کسی دھوپ کے ٹکڑے نے تمہیں
روز کی طرح سے پھر چھیڑا ہے
یا تھکا ماندہ پرندہ ہے جو آ بیٹھا ہے
اس بلندی سے نہ دیکھو کہ مرے ہاتھ بھی پتھرا جائیں
جھرجھری لے کے رگوں کی شاخیں
ایک لمحے کے لئے جاگ اٹھیں
لہلہانے لگیں جیسے پھر سے
جڑ گئی ہوں وہ پراچین جڑوں سے اپنی
آپ اپنے میں اترتی ہوئی
چپ چاپ گپھاؤں میں گھنے پیڑ تلے
کھوجتا رہتا ہوں بتلاؤ کہاں کھو گئے
انگلی کا اشارہ پا کر
الٹی پھرتی ہوئی چکری کی طرح یہ دنیا
بند آنکھوں میں سمٹ آتی ہے
روز ہر صبح کا اخبار جتاتا ہے کہ اس دھرتی پر
سارے در بند ہوئے
ہاتھ آکاش کے راتوں کو نہ اتریں گے کبھی
کوئی سچائی کے دکھ بانٹنے والا بھی نہیں
غار کی آنکھ سے دیکھو مجھ کو
اپنے کاندھے پہ اٹھائے ہوئے بیتال کی لاش
لوٹ آیا ہوں سنبھالو یہ وراثت اپنی
میں تھکا ماندہ پرندہ ہی سہی
دھان کے کھیت میں بھج کاگ کی مانند کھڑے ہو تم بھی
چڑیاں بے وجہ سہم جاتی ہیں اور بھوکی ہی پلٹ آتی ہیں
چڑیاں زندہ ہیں کہ بھج کاگ
کوئی کیا جانے
- کتاب : 1971 ki Muntakhab Shayri (Pg. 29)
- Author : Kumar Pashi, Prem Gopal Mittal
- مطبع : P.K. Publishers, New Delhi (1972)
- اشاعت : 1972
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.