وہ عالم خواب کا تھا
سو رہے تھے سب
مگر اک وہ
اکیلا جاگ اٹھا تھا
کچھ ایسے نیند ٹوٹی تھی
کہ ہر ہر عضو بے کل تھا
بدن سارا
تغیر کی طلب میں
ماہی بے آب کی صورت تڑپتا تھا
جنوں و بے قراری نے
رگوں میں بجلیاں بھر دیں
ہزاروں سال سے رکھے ہوئے پتھر کو سرکایا
وہ اپنے غار سے باہر نکل آیا
نگاہیں روشنی سے چار ہو کر جوں ہی پلٹیں
اس نے خود کو
زندگی سے وصل کے امکان میں پایا
بہت لمبا بہت دشوار رستہ طے کیا اس نے
نہ جانے کتنے دریا کوہ و صحرا درمیاں آئے
طلسم و ہفت خواں آئے
تب اس شہر بلند و بالا و پر کیف میں پہنچا
جہاں انسان اور حیوان سب بیدار رہتے تھے
بڑے بے خار ہوتے تھے
زباں تھی سوکھ کے کانٹا
پپوٹے پھول کے کپا
کہ اس پر جاگتے رہنے کا ایسا شوق غالب تھا
بدن وحشت کا طالب تھا
مگر یہ کیا
اسے معلوم یہ کب تھا
ذرا جو مختلف ہو
شہر بیداراں میں اس پر کیا گزرتی ہے
دکانیں جن کی اونچی تھیں
اسے مخبر سمجھتے تھے
جو ماشہ خور تھے پھیری لگاتے تھے
اسے پاگل بتاتے تھے
وہاں بازار میں کوئی اسے کچھ بھی نہ دیتا تھا
جو سکے پاس تھے اس کے انہیں کوئی نہ لیتا تھا
وہ واپس جا نہ سکتا تھا
خدائے لم یزل کے حکم سے
اس غار کا منہ بند تھا پھر سے
عجب بے یاوری ناآشنائی تھی
سزا محض اس نے
آنکھ کھل جانے کی پائی تھی
- کتاب : Ishq ki taqveem me.n (Pg. 187)
- Author : HARIS KHALEEQ
- مطبع : Hoori Nurani, Maktaba Daniyal, Victoria Chaimber 2 (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.