ہوا اور دھوپ کا قرنوں پرانا ساتھ ہے
اور زندگی موج رواں ہے
وہ کسی پل رک نہیں سکتی
نجانے کتنے برسوں کی یہ پر اسرار تنہائی
مرے دل میں
کھجوروں کے درختوں کی طرح
یوں ایستادہ ہے
کہ اجڑے قرطبہ کے سارے منظر
میری آنکھوں میں لرزتے ہیں
نجانے کتنے برسوں کی اداسی کے
اندھیرے گنبدوں میں گونجتے
جاں سوز اندیشے
مسلسل مجھ پہ یورش کرتے ہیں
اور اندلس کے کوچہ و بازار اور باغوں کو
فولادی سموں سے روندتے
گھوڑوں کی ٹاپوں سے
مرا سینہ دھمکتا ہے
مرے احساس کی یہ رنجشیں
اور روح کے یہ دکھ کسی اک ساعت سفاک نے
مجھ کو نہیں سونپے
کہ یہ تو اصل میں وہ جال ہے
تاریخ کی مکڑی جو صدیوں سے
مرے اندر کہیں
چپ چاپ بنتی ہے
ہوا اور دھوپ میری زندگی کے منظروں میں
بے ثباتی کی علامت ہیں
زمیں کی گردشوں سے تیز ہے
حالات کی گردش
اسی نے میرے سر میں خاک ڈالی ہے
یہی تو میری آنکھوں میں
پگھلتی برف کی دیوار چنتی ہے
یہ کس کی بات سنتی ہے
مری سانسوں میں
غرناطہ کی دھول
اڑتی ہے
اور خاموش دہلی کی
ہوائیں سرسراتی ہیں
ہوں
ہوا کا رخ بدلنے پر
وہ دل حیراں نہیں ہوتے
- کتاب : Zehn-e-Jadeed (Pg. 185)
- اشاعت : 2000
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.