یاد
رات اوڑھے ہوئے آئی ہے فقیروں کا لباس
چاند کشکول گدائی کی طرح نادم ہے
ایک اک سانس کسی نام کے ساتھ آتی ہے
ایک اک لمحۂ آزاد نفس مجرم ہے
کون یہ وقت کے گھونگھٹ سے بلاتا ہے مجھے
کس کے مخمور اشارے ہیں گھٹاؤں کے قریب
کون آیا ہے چڑھانے کو تمناؤں کے پھول
ان سلگتے ہوئے لمحوں کی چتاؤں کے قریب
وہ تو طوفان تھی، سیلاب نے پالا تھا اسے
اس کی مدہوش امنگوں کا فسوں کیا کہئے
تھرتھراتے ہوئے سیماب کی تفسیر بھی کیا
رقص کرتے ہوئے شعلے کا جنوں کیا کہیے
رقص اب ختم ہوا موت کی وادی میں مگر
کسی پائل کی صدا روح میں تابندہ ہے
چھپ گیا اپنے نہاں خانے میں سورج لیکن
دل میں سورج کی اک آوارہ کرن زندہ ہے
کون جانے کہ یہ آوارہ کرن بھی چھپ جائے
کون جانے کہ ادھر دھند کا بادل نہ چھٹے
کس کو معلوم کہ پائل کی صدا بھی کھو جائے
کس کو معلوم کہ یہ رات بھی کاٹے نہ کٹے
زندگی نیند میں ڈوبے ہوئے مندر کی طرح
عہد رفتہ کے ہر اک بت کو لیے سوتی ہے
گھنٹیاں اب بھی مگر بجتی ہیں سینے کے قریب
اب بھی پچھلے کو، کئی بار سحر ہوتی ہے
- کتاب : Kulliyat-e-Mustafa Zaidi(Shahr-e-Aazar) (Pg. 99)
- Author : Mustafa Zaidi
- مطبع : Alhamd Publications (2011)
- اشاعت : 2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.