سانسوں کا بوجھ بھاری ہو جانے کے بعد
میں اسے گھر چھوڑ کر سفر پر نکل پڑا ہوں
مگر چوک میں بیٹھی خاموشی
مجھے گھور رہی ہے
سارا دن تخیل کی دنیا میں گزارنے کے بعد
شام کے وقت اداسیوں کا بوجھ اٹھائے
میں لوٹ آتا ہوں
کیوںکے روشن دان سے آنے والا اندھیرا
میرے بنا گھبرا جاتا ہے
میرے کچھ معذور خواب میرے بستر پر
میرا انتظار کرتے ہیں
مگر نیند اب میری دنیا سے ہجرت کر چکی ہے
رات بھر آنکھیں آنسوؤں سے مباشرت کرتی ہیں
میرا ذہن فقط حادثوں کے بارے میں سوچتا ہے
رات بھر رونے کی آوازیں آتی ہیں
میں اب بین کی لوری کا عادی ہو چکا ہوں
رات بھر تیز بارش احتجاج کرتی ہے
میں غموں کو پرانا اخبار سمجھ کر
جلا دینا چاہتا ہوں
مگر ان اخباروں پر میری چند
مسکراتی تصویریں ہیں
پیڑ میرے قہقہوں سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں
صدیوں سے یہی سب دہراتا میں سوچتا ہوں
کہ کیا رات انسان کی دشمن ہے
یا پھر اندھیرا یا کسی کی یاد کا کینسر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.