یادوں کی مانوس ہوا
خط ان کا انجان شہر سے آنا تھا نہ آیا ہے
پڑھ کر ناول افسانوں کو دل اپنا بہلایا ہے
غم کا پنچھی دیس دیس صحرا صحرا منڈلایا ہے
ڈالی ڈالی ڈھونڈ چکا پتا پتا کھڑکایا ہے
یادوں کی مانوس ہوا سے زخموں کو سہلایا ہے
یاد نہیں کیا ان کو بچپن کتنے ناز اٹھاتے تھے
روٹھا کرتا تھا میں اکثر پہروں مجھے مناتے تھے
سو جاتا تھا جب میں تھک کر اس مہوے کے پیڑ تلے
مٹی کے دربان کا پہرہ سرہانے بٹھلاتے تھے
کیا پروا کے ٹھنڈے جھونکے ان کے دیس نہیں جاتے
ان کے آنگن کے موسم رومانی گیت نہیں گاتے
آؤ بچو ساتھ تمہارے ریت گھروندے ہم بھی کھیلیں
تال سے گیلی مٹی لاؤ اک مورت ان کی ڈھالیں
کھیل ختم ہو جانے تک پھر ان کے نشاں مٹا دینا
آج یہاں جو کھیل رہے ہو کل اس جگہ بنا لینا
ورنہ یہ ریزے بن بن کر صدیوں چبھتے رہتے ہیں
آنکھوں سے ٹکراتے ہیں پھر دل کو چھلنی کرتے ہیں
وہ دیکھو اس پیڑ کے نیچے اینٹیں پتھر بکھرے ہیں
میرے اجڑے شیش محل کے نازک نازک ٹکڑے ہیں
لے جاؤ برسا دو ان کو آم کے پکے گودوں پر
یا پھر ان کو پھینک دو کالی کوئل زرد پپیہوں پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.