یادوں کی زنجیریں
اپنے آپ سے لڑتے لڑتے ایک زمانہ بیت گیا
اب میں اپنے جسم کے بکھرے ٹکڑوں کے انبار پہ بیٹھا
سوچ رہا ہوں
میرا ان سے کیا رشتہ ہے
ان کا آپس میں کیا رشتہ ہے
کون ہوں میں
اور کس تلوار سے میں نے اپنے جسم کے ٹکڑے کاٹے ہیں
اب میں کیا ہوں
اور اب مجھ کو کیا کرنا ہے
میں نے کیا تعمیر کیا تھا
چھوٹی چھوٹی یادوں کی زنجیر سے
میں نے اپنے انگ انگ کو باندھ لیا تھا
اپنے گرد پرانے اور نئے لفظوں کی دیواریں چن لی تھیں
اب میرا ان دیواروں سے
ان زنجیروں سے
کوئی رشتہ باقی ہے تو اتنا ہے
جیسے اپنی رہائی کا مجھ کو یقیں نہ ہو
میں دیوانہ ہوں
اب مجھ سے اتنا فیض کرو یارو
میں نے جتنے شعر لکھے ہیں میرے سر پہ دے مارو
- کتاب : Deewar pe dastak (Pg. 619)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.