یاس کے پردے میں
نجات غم سے کبھی ملی ہے نہ زندگی بھر کبھی ملے گی
تڑپ کے نکلے گی جان مضطر اگر کسی دن خوشی ملے گی
جو رازداری وطن میں پنہاں تھا کون اس کو نہ جانتا تھا
کہ اک طرف خواجگی ملے گی تو اک طرف بندگی ملے گی
یہی ہے جمہوریت کے معنی تو پھر غلامی کا کیسا شکوہ
کسی کو غم ہوگا اور کسی کو مسرت دائمی ملے گی
کسے خبر تھی کہ انقلاب زمانہ بدلے گا کروٹ ایسی
جو کافری کو فروغ دے گا اسی کو پیغمبری ملے گی
جو ملک میں انقلاب آیا تو قتل و غارت کے ساتھ آیا
سمجھ رہے تھے سمجھنے والے کہ اک نئی زندگی ملے گی
اداسیوں نے اجاڑ ڈالا کچھ اس طرح باغ آرزو کا
نہ تازہ دم اس میں گل ملیں گے نہ مسکراتی کلی ملے گی
زمانہ واقف نہ تھا کچھ اس سے کہ ایسا قحط گراں پڑے گا
جو چیز ملنی تھی چار پیسوں کو اشرفی پر وہی ملے گی
یہ کیا خبر تھی کہ فاقہ مستی میں ستر پوشی بھی ہوگی مشکل
اماں کی جب ہوں گی التجائیں تو قتل و غارت گری ملے گی
چھپے گا انسانیت کا سورج ہجوم کلفت کی آندھیوں میں
بڑھے گا ذوق سیاہ کاری دلوں میں بھی تیرگی ملے گی
مگر یہ فطرت کی انقلابی نمائشیں مجھ سے کہہ رہی ہیں
انہی اندھیروں سے بزم گیتی کو ایک دن روشنی ملے گی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.