یہی سب کچھ ہے
یہی سب کچھ ہے
اگر ٹھہری ہوئی گہری نظر سے دیکھو
بے سبب آنکھ سے بہتی ہوئی اشکوں کی قطار
کپکپاتے ہوئے ہونٹوں کا سکوت
جسم کے تند مہ و سال
زمانے کی جھلستی ہوئی دوپہر میں سائے کے سلگتے اندام
سانس کی لہر سے لرزا ہوا زلفوں کا حصار
رقص کرتی ہوئی خواہش سے چھلکتے ہوئے زرد ایام
تمام
مان لیتے ہیں کہ یہ وقت بدلتے لہجے
اب بھی اعجاز دکھا سکتے ہیں
یہ مسیحائی کا جھریوں بھرا چہرا اب بھی
مسکراہٹ کے لیے تازگی چن سکتا ہے
یہ گزشتہ کا فسوں بخت حوالے اب بھی
وقت کی نبض تھما سکتے ہیں
لیکن ایسا ہے کہ جب دھڑکنیں گھنگھرو بن جائیں
خواہشیں رقص کیا کرتی ہیں سکوں کی جھنک بولتی ہے
تھرتھراتے ہوئے جسموں سے حواسوں کا دھواں اٹھتا ہے
اشتہا آگ جنا کرتی ہے
بھوک عفریت ہے
وحشت ہے بڑی آفت ہے
بھوک خمیازۂ جان و تن ہے
بے پر و بال کیا کرتی ہے
وقت کی تال کو بے تال کیا کرتی ہے
بھوک اعصاب شکستہ کی کھلی بیعت ہے
یہ خد و خال کچل دیتی ہے
تہذیب کے ریشوں کو مسل دیتی ہے
اور سرمایہ پرستی کے سنہرے ایام
گرد رخسار شب و روز پہ مل جاتے ہیں
سینۂ خاک کو دہلاتا ہوا صور فلک
مطمئن خاک نشینوں کے لیے
روز ہی روز وغا لاتا ہے
اور شب و روز مہ و سال میں ڈھل جاتے ہیں
یہی سب کچھ ہے اگر ٹھہری ہوئی گہری نظر سے دیکھو
سرخیٔ[ چشم کہیں پہلوئے بے تاب کہیں
بے کراں باہیں کہیں
لمس کہیں
خواب کہیں
لہریا پردوں سے چھنتی ہوئی شاموں کا نشہ
جسم سہلاتی ہوئی رات کا نم
بیش نہ کم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.