یک نکاتی ایجنڈا
مہینہ بھر سر کے بال نہ کٹواؤں تو مجھے کیا
دیکھنے والوں کو وحشت ہونے لگتی ہے
ہر ہفتے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن نہ لوں تو
محسوس ہوتا ہے جانور بنتا جا رہا ہوں
صبح شیو نہ بناؤں تو گھر سے نکلتے جھجک آتی ہے
ٹھہریے ذرا میں دیکھ لوں باہر یہ شور کیسا ہے
ارے مالی لان میں گھاس کی مشین پھیر رہا تھا
آپ تو جانتے ہیں گھاس نہ کٹے تو مچھر جان نہیں چھوڑتے
ویسے کبھی آپ نے تاکستانوں میں انگور کی ٹنڈ منڈ مڈھیوں کو دیکھا ہے
یقین ہی نہیں آتا کہ ان سے نئی شاخیں پھوٹیں گی
جو پتوں اور گچھوں سے لد جائیں گی
ابھی میں نے گلاب کے پودوں کی اپنے ہاتھوں سے کانٹ چھانٹ کی ہے
میری عالم فاضل بیوی کی جان نکلتی جا رہی تھی
جب میں بے دردی سے قینچی چلا رہا تھا
لیکن میں باغبانوں کی اولاد ہوں
دکھ تو مجھے بھی ہوتا ہے
پلے ہوئے پودوں اور درختوں کو چھانگتے ہوئے
لیکن پھول اور پھل تو اس کے بغیر یوں سمجھے رنگ ہی نہیں لاتے
نہ وہ حسن نہ وہ مزہ نہ وہ بہتات
آپ بھی سوچتے ہوں گے پنجاب کا مقدمہ لڑتے لڑتے
میں حجاموں اور مالیوں کی وکالت کرنے تو نہیں چل پڑا
سادہ سی بات ہے کہ انسانوں اور پودوں کی تراش خراش ہوتی رہنی چاہیے
لیکن کیا بال کٹوا لیے جائیں ناخن لے لیے جائیں شیو کر لی جائے
تو کام ختم ہو جاتا ہے
کیا انسان صرف جسم کا نام ہے یا
جذبات خیالات خواہشات اور عزائم بھی ہمارا حصہ ہیں
تو کیا جسم کے ساتھ ان کی تراش خراش بھی ضروری ہے
شاید جذبات اور خیالات کی تراش خراش ہی کو تہذیب کہتے ہیں
شاید خواہشاتاً اور عزائم کی نوک پلک سنوارنے ہی سے تمدن نے جنم لیا ہے
ورنہ تو انسان غرض مندانہ حقوق ہی کے چکر سے نہیں نکلتا
اور ذمہ داریوں کے ادراک و احساس کی نوبت ہی نہیں آتی
معاف کیجیے یہ ساری چوری چکاری بد کاری ہوس کاری
یہ ساری لوٹ مار جعل سازی حرا مزدگی بے صبری نا شکر گزاری
یہ سارا جھوٹ فریب لالچ فتنہ فساد
جذبات و خیالات اور خواہشات و عزائم کی حجامت نہ بنانے ہی کا تو نتیجہ ہے
جناب جذبات کو تمیز اور خیالات کو اخلاق نہ سکھایا جائے
خواہشات اور عزائم کے منہ پر انسانیت کی لگام نہ دی جائے
تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو آج ہمارے یہاں ہو رہا ہے
اور یہ کہہ کر زیادہ دن گزارہ نہیں ہو سکتا کہ
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
آپ ہنسیں گے میں جب بھی یہ مصرع پڑھتا ہوں
اس طرح سے مجھے استرا یاد آ جاتا ہے
قینچیاں یاد آ جاتی ہیں حجامت یاد آ جاتی ہے
کچھ بھی ہو میں تو سمجھتا ہوں کہ قومی سطح پر ہماری حجامت بہت ضروری ہو گئی ہے
ہمارے صرف بال اور ناخن ہی نہیں بڑھ گئے
ہم ظاہر ہی میں نہیں باطن میں بھی جانور بنتے جا رہے ہیں
جانوریت ہمارے دل و دماغ میں اتر گئی ہے
اب تو اندر باہر حجامت کی ضرورت ہے
بھئی بلاؤ کسی نشتر بدست حجام کو جو حجامت بنائے اور فصد کھولے ہماری
لیکن ایک انار اور سو بیمار
ایک اکیلا حجام اور چودہ کروڑ انسان
یہ تو ہم سب کو خود ہی آئینے کے سامنے بیٹھ کر حجامت بنائی اور فصد کھولنی پڑے گی اپنی
تو بھائیو اور بہنو
میرے پیارے ہم وطنو
آج سے قومی سطح پر ہمارا یک نکاتی ایجنڈا کیا ٹھہرا
بولئے سب بولئے پورے زور سے بولئے
حجامت
حجامت
اپنی اپنی حجامت
- کتاب : din kaa phool (Pg. 200)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.