Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یک نکاتی ایجنڈا

محمد حنیف رامے

یک نکاتی ایجنڈا

محمد حنیف رامے

MORE BYمحمد حنیف رامے

    مہینہ بھر سر کے بال نہ کٹواؤں تو مجھے کیا

    دیکھنے والوں کو وحشت ہونے لگتی ہے

    ہر ہفتے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن نہ لوں تو

    محسوس ہوتا ہے جانور بنتا جا رہا ہوں

    صبح شیو نہ بناؤں تو گھر سے نکلتے جھجک آتی ہے

    ٹھہریے ذرا میں دیکھ لوں باہر یہ شور کیسا ہے

    ارے مالی لان میں گھاس کی مشین پھیر رہا تھا

    آپ تو جانتے ہیں گھاس نہ کٹے تو مچھر جان نہیں چھوڑتے

    ویسے کبھی آپ نے تاکستانوں میں انگور کی ٹنڈ منڈ مڈھیوں کو دیکھا ہے

    یقین ہی نہیں آتا کہ ان سے نئی شاخیں پھوٹیں گی

    جو پتوں اور گچھوں سے لد جائیں گی

    ابھی میں نے گلاب کے پودوں کی اپنے ہاتھوں سے کانٹ چھانٹ کی ہے

    میری عالم فاضل بیوی کی جان نکلتی جا رہی تھی

    جب میں بے دردی سے قینچی چلا رہا تھا

    لیکن میں باغبانوں کی اولاد ہوں

    دکھ تو مجھے بھی ہوتا ہے

    پلے ہوئے پودوں اور درختوں کو چھانگتے ہوئے

    لیکن پھول اور پھل تو اس کے بغیر یوں سمجھے رنگ ہی نہیں لاتے

    نہ وہ حسن نہ وہ مزہ نہ وہ بہتات

    آپ بھی سوچتے ہوں گے پنجاب کا مقدمہ لڑتے لڑتے

    میں حجاموں اور مالیوں کی وکالت کرنے تو نہیں چل پڑا

    سادہ سی بات ہے کہ انسانوں اور پودوں کی تراش خراش ہوتی رہنی چاہیے

    لیکن کیا بال کٹوا لیے جائیں ناخن لے لیے جائیں شیو کر لی جائے

    تو کام ختم ہو جاتا ہے

    کیا انسان صرف جسم کا نام ہے یا

    جذبات خیالات خواہشات اور عزائم بھی ہمارا حصہ ہیں

    تو کیا جسم کے ساتھ ان کی تراش خراش بھی ضروری ہے

    شاید جذبات اور خیالات کی تراش خراش ہی کو تہذیب کہتے ہیں

    شاید خواہشاتاً اور عزائم کی نوک پلک سنوارنے ہی سے تمدن نے جنم لیا ہے

    ورنہ تو انسان غرض مندانہ حقوق ہی کے چکر سے نہیں نکلتا

    اور ذمہ داریوں کے ادراک و احساس کی نوبت ہی نہیں آتی

    معاف کیجیے یہ ساری چوری چکاری بد کاری ہوس کاری

    یہ ساری لوٹ مار جعل سازی حرا مزدگی بے صبری نا شکر گزاری

    یہ سارا جھوٹ فریب لالچ فتنہ فساد

    جذبات و خیالات اور خواہشات و عزائم کی حجامت نہ بنانے ہی کا تو نتیجہ ہے

    جناب جذبات کو تمیز اور خیالات کو اخلاق نہ سکھایا جائے

    خواہشات اور عزائم کے منہ پر انسانیت کی لگام نہ دی جائے

    تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو آج ہمارے یہاں ہو رہا ہے

    اور یہ کہہ کر زیادہ دن گزارہ نہیں ہو سکتا کہ

    اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

    آپ ہنسیں گے میں جب بھی یہ مصرع پڑھتا ہوں

    اس طرح سے مجھے استرا یاد آ جاتا ہے

    قینچیاں یاد آ جاتی ہیں حجامت یاد آ جاتی ہے

    کچھ بھی ہو میں تو سمجھتا ہوں کہ قومی سطح پر ہماری حجامت بہت ضروری ہو گئی ہے

    ہمارے صرف بال اور ناخن ہی نہیں بڑھ گئے

    ہم ظاہر ہی میں نہیں باطن میں بھی جانور بنتے جا رہے ہیں

    جانوریت ہمارے دل و دماغ میں اتر گئی ہے

    اب تو اندر باہر حجامت کی ضرورت ہے

    بھئی بلاؤ کسی نشتر بدست حجام کو جو حجامت بنائے اور فصد کھولے ہماری

    لیکن ایک انار اور سو بیمار

    ایک اکیلا حجام اور چودہ کروڑ انسان

    یہ تو ہم سب کو خود ہی آئینے کے سامنے بیٹھ کر حجامت بنائی اور فصد کھولنی پڑے گی اپنی

    تو بھائیو اور بہنو

    میرے پیارے ہم وطنو

    آج سے قومی سطح پر ہمارا یک نکاتی ایجنڈا کیا ٹھہرا

    بولئے سب بولئے پورے زور سے بولئے

    حجامت

    حجامت

    اپنی اپنی حجامت

    مأخذ :
    • کتاب : din kaa phool (Pg. 200)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے