یہ بغاوت ہے
روندتے جاؤ گزر گاہوں کو
سر اٹھائے ہوئے
سینہ تانے
کانپ جائیں در و دیوار
قدم یوں اٹھیں
دھڑکنیں دل کی بنیں بانگ رحیل
یہ بغاوت ہے
بغاوت ہی سہی
ہم نے انجام وفا دیکھ لیا
خس و خاشاک بہاتا ہوا اپنا سیلاب
اب جو اٹھا ہے تو بڑھتا ہی چلا جائے گا
یہ زر و سیم کے تودوں سے نہیں رک سکتا
گولیاں
کس کو ڈراتے ہو
یہ ڈس سکتی ہیں
ڈس جانے دو
بے نوا سست قدم واماندہ
سال آتے تھے چلے جاتے تھے
وقت کے دامن خوش رنگ پہ کالے دھبے
خشک لب ہانپتے بے بس ایام
راہ کے بیچ میں الجھے ہوئے رہ جاتے تھے سستانے کو
گھبرائے ہوئے
اب تو ہر سانس دہکتا ہوا انگارہ ہے
دل کہ برفاب تھے اب آتش سیال کا فوارہ ہیں
برق رفتار ہے وقت
اور ہم وقف سے دو چار قدم آگے ہیں
چیخ اٹھیں قرنائیں
جھانجھ بجیں
دھوم ہو نقاروں کی
مسکراتے ہوئے گاتے ہوئے بڑھتے جاؤ
پھینکتے ہیں ہمیں تاروں پہ کمند
خیمہ زن ہونا ہے مریخ کے میدانوں میں
- کتاب : Muntakhab Shahkar Nazmon Ka Album) (Pg. 83)
- Author : Munavvar Jameel
- مطبع : Haji Haneef Printer Lahore (2000)
- اشاعت : 2000
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.