یہ برہم نئی نسل
یہ برہم نسل بھی روشنی ہے
خیالوں کی سب کھڑکیاں کھول رکھو
سلامؔ اپنی نظموں سے کہہ دو سنور لیں
کہو کاغذوں سے کہ وہ رنگ بھر لیں
کہو ان گلابوں سے
آنگن کے ان جاوداں ماہتابوں سے
ان کی صدی ہے
جو اب سامنے ہے
وہی زندگی ہے
یہ برہم نئی نسل بھی روشنی ہے
خیالوں کی سب کھڑکیاں کھول رکھو
۲
اگر صبح نو کا ہے پرچم ضروری
تو پھر اس کا ہے خیر مقدم ضروری
مقفل ہوئے تو
اندھیرے میں تنہائی کا ناگ ڈسنے لگے گا
تمہارے تخیل کے فردوس میں
قافلہ ایسی روحوں کا بسنے لگے گا
جو تم سے کہیں گے
سلامؔ اپنی نظموں کے درپن میں دیکھو
تمہارا تخیل وہ تربت ہے جس پر
فریب خودی کی بھی چادر نہیں ہے
نتیجہ
وہی
آج تک جو ہوا ہے
۳
یہ برہم نئی نسل زندہ حقیقت ہے
افسانۂ خواب پامال کر دو
یہ مانگی ہوئی بوتلوں کی حسینہ
یہ عشرت محل
اور عشرت محل میں یہ نشے کا جادو
یہ نشہ اندھیرا
اندھیرا اندھیرا اندھیرا
اگر روشنی کی ضرورت ہے تم کو
تو پھر سگریٹوں کے دھوئیں کا بنایا
یہ مدقوق مہتاب پامال کر دو
یہ برہم نئی نسل بھی روشنی ہے
خیالوں کی سب کھڑکیاں کھول رکھو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.