یہ درد اب کے سوا ہے حد سے
وہ درد بھی تھا سوا حدوں سے
تمہاری آمد کا جس میں مژدہ چھپا ہوا تھا
وہ درد رگ رگ کی چیخ بن کر صدا ہوا تھا
تو آنکھ خوشیوں سے نم ہوئی تھی
زباں سے شکر خدا تھا نکلا
زمیں کا ٹکڑا جو زیر پا تھا
ہوا تھا جنت
کہ اپنی تکمیل پر ہوئی تھی میں سر بہ سجدہ
مگر مری جاں
وہ خواب موسم گزر چکا ہے
ہزار راتوں کے رتجگوں کا حساب کیسا
جسے کہ اپنے لہو سے سینچا
شجر بنایا
وہ میرا کب تھا
عذاب کیسے اتر رہے ہیں
یا خواب آنکھوں میں مر رہے ہیں
رفاقتوں میں یہ ہجرتوں کی مہک گھلی کیوں
مسافتوں میں تھکن سی کیوں جسم و جاں میں اتری
کوئی بتائے
کہ گود بھرنے کے بعد خالی یہ ہاتھ کیوں ہیں
یہ کیسا چہرہ ہے زندگی کا
لبوں پہ حرف دعا ہے ساکت
میں پھر سے اک بار درد لہروں کی زد پہ ٹھہری یہ سوچتی ہوں
کہ جس کو بننے میں عمر کاٹی
وہ خواب موسم گزر چکے ہیں
غبار آنکھوں میں بھر چکے ہیں
نوید دیتا ہو کوئی لمحہ
کوئی پکارے کہ میں یہیں ہوں
پلٹ کے آئیں وہ پاؤں جس کے لئے زمیں ہوں
نہیں ہے کوئی صدا نہیں ہے
مگر مری جاں یہ درد اب کے سوا ہے حد سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.