یہ عشق کہاں لے جائے گا
تپتی راہوں سے چل چل کے
جب چھاؤں کی خواہش بھی نہ رہی
عاشقوں کی روانی روک تو لی
قطرہ قطرہ امید بہائی
یہ عشق کہاں لے جائے گا
بے خواب سویروں کی آواز
پر نور شبوں کو بھول گئے
انداز بیاں میں الجھ گئے
شیریں لبوں کو بھول گئے
یہ عشق کہاں لے جائے گا
صدیوں کی تھکن سے جیت کے بھی
اک پل کی نراشا سہہ نہ سکے
ساگر پینے کا دعویٰ ہے
دو اشک بہے بن رہ نہ سکے
یہ عشق کہاں لے جائے گا
لے گیا جہاں لے جانا تھا
کچھ خاص مزے کی جگہ نہیں
جس کی خاطر دل کو توڑیں
مر جائیں یہ وو وجہ نہیں
یہ عشق کہاں لے جائے گا
ہستی کے اور بھی مدعا ہیں
ہنسنے کے بہانے اور بھی ہیں
خواہش کے دریچے ہیں ہر سو
اور غم کے فسانے اور بھی ہیں
یہ عشق کہاں لے جائے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.