یہ کیسے لوگ ہیں
یہ کیسے لوگ ہیں جو سنگ بستہ جالیوں کی طرح آنکھیں بند رکھتے ہیں
سرہانے لڑکیوں کے رات کی بکھری کتابیں ہیں
اور ان کے خواب اندھیروں کے درکتے روزنوں سے
دھڑدھڑاتی بلیوں کی طرح گھر گھر پھیل جاتے ہیں
میں ساری رات آوازوں کا مبہم شور سنتا ہوں
اور آنکھیں بند رکھتا ہوں
اور ان کے ساتھ ہو لیتا ہوں جن کا راستہ میرا مقدر ہے
سو اب میری گواہی کون دے گا
کہ میں اپنی گواہی کے لیے زندہ نہیں ہوں
وہ ایسے لوگ تھے جو
دشت بے دیوار میں اپنے سفر کا نیند سے آغاز کرتے تھے
اور ان کی انگلیاں صحرائی سانپوں کی طرح ان کے بدن پر رینگتی تھیں
اور ان کی گردنیں ٹوٹی کمانوں کی طرح ان کے بدن پر جھولتی تھیں
وہ اپنی پٹ کھلی آنکھوں سے سوتے تھے
وہ چلتے تھے تو ان کی آستینیں پاؤں میں آتی تھیں
اور وہ رک کے چلتے تھے
درختوں میں کہیں بیٹھا روپہلی رت کا کارندہ
سمندر سمت کا قطبی ستارہ ہے
سمندر میری آنکھوں کا اشارہ ہے
اسے کہنا وہ میری میز پر اپنی ہتھیلی یوں جمائے مجھ کو مت دیکھے
اسے کہنا ستاروں اور ان کی چال میں کچھ فرق ہوتا ہے
اسے کہنا وہ اپنی گردن بے ساختہ کے آئنے میں مجھ کو مت دیکھے
اسے کہنا وہ اپنی بلیوں کی گردنوں پر ہاتھ رکھ کر مجھ کو مت دیکھے
اسے کہنا محبت اک اکیلی ناؤ ہے
اور آسماں آئینہ برداری کا مجرم ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.