یوں بھی ہوتا ہے کہ اپنے آپ آواز دینا پڑتی ہے
دنیا بے صفتی کی آنکھ سے دیکھ
یہ تکوین، ،زمان زمینیں،
مستی اور لگن کی لیلا
اک بہلاوا ہے
اس بہلاوے میں اک دستاویز ہے
جس کا اول آخر
پھٹا ہوا ہے
دودھیا روشن
شاہراہوں پر
کتنے یگ تھے
جن میں خاموشی کے لمبے لمبے سکتے ہیں
بارش اور ماٹی کا ذکر نہیں
پھر بھی ہم نے
معنی اور امکان کی بے ترتیبی میں
ادھر ادھر سے
زندہ رہنے کا سامان کیا
خوابوں کے گدلے پانی میں مچھلی دیکھ کے
حرف بنائے
اور چکنی مٹی کی مورت پر
دو آنکھیں رکھیں
گھٹتی بڑھتی دنیاؤں تک
مستی اور لگن کی لیلا میں
اب حرف ہمارے دلوں کو روشن رکھتے ہیں
لیکن جرعہ جرعہ
عمروں کے دالان میں
اپنے آپ کو بے خبری سے
بھرنا پڑتا ہے
نیلی چھت
ٹھنڈی رکھنے کو
تن من نیلا کرنا پڑتا ہے!!
- کتاب : Quarterly TASTEER Lahore (Pg. 99)
- Author : Naseer Ahmed Nasir
- مطبع : H.No.-21, Street No. 2, Phase II, Bahriya Town, Rawalpindi (Volume:15, Issue No. 1, 2, Jan To June.2011)
- اشاعت : Volume:15, Issue No. 1, 2, Jan To June.2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.