اب کوئی صحرا نہ اونٹوں کی قطاریں
گھنٹیاں سی جگمگاتی خواہشوں کی
دھیان کے کہرے میں لپٹی
گنگناتی ہیں مگر مضراب آئندہ سفر کے
راستوں کے ساز سے ناراض ہیں
میں اسی اندھی گلی کی قبر میں مرنے لگا
بھاگ نکلی تھی جہاں سے
زیست پیدائش کے دکھ دے کر مجھے
آنکھ سے چپکے نظاروں کے ہزاروں داغ ہیں
جو وقت کی بارش سے بھی دھلتے نہیں
کون سی دیوار میں رخنے ہیں کتنے
کون دروازوں کو کیسی چاٹ دیمک کی لگی ہیں
کون سی چھت تک کسی نے
سیڑھیوں میں ٹھوکریں کتنی رکھی ہیں
ہر کہانی یاد ہے
سن مرے ہم زاد سن!
زندگی کے کھوج میں اب
ہجرتیں واجب ہیں لیکن
سرحدوں سے ماورا ہیں
یا ہوائیں یا صدائیں یا پرندے
میں تمنا کے جہازوں کا مسافر
یا پاسپورٹوں اور ویزوں کے ایر پیکٹ ڈراتے ہیں مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.