زہر کا دریا
چلو کہ زہر کے دریا کی سیر کی جائے
اسے متھیں اور امرت کی کھوج کی جائے
اپنے خود غرض ارادوں کی باٹ بٹ کر کے
کائنات اک نئی شروع کی جائے
وہ جو دانوؤں کو بھسم کرتی ہو
جو دیوتاؤں کو انسان کرتی ہو
وہ جس میں شیو کو زہر پینا نہ پڑے
وہ کائنات جو سب کو سمان کرتی ہو
وہ جس میں بھیس راہو بدل نہ سکے
بدل بھی لے تو امرت کو پی نہ سکے
وہ جس میں کورووں کی ذات نہ ہو
وہ جس میں سیتا کوئی چرا نہ سکے
میں جنتا ہوں دنیا بدل نہیں سکتی
ایک ہو کر کے ساگر کو متھ نہیں سکتی
یوں ہی خیال سا گزرا ہے بے معنی سا
جس کی تکمیل ہر حال ہو نہیں سکتی
پھر بھی
چل کے دیکھو تو زہر کا دریا
متھنے کی کوششیں تو کرو
کسے پتہ ہے پھر سے امرت نکل ہی پڑے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.