ضعیفہ
اک ضعیفہ راستے میں سو رہی ہے خاک پر
مردنی چھائی ہوئی ہے چہرۂ غم ناک پر
اور کس موسم میں جب طاعون ہے پھیلا ہوا
ذرہ ذرہ ہے وبا کے خوف سے سمٹا ہوا
رات آدھی آ چکی ہے بام و در خاموش ہیں
اہل دولت لیلئ عشرت سے ہم آغوش ہیں
اس قیامت کی ہے طاری ظلمت ہول آفریں
شب کے دل میں صبح کا گویا تصور تک نہیں
پیچھے پیچھے آ رہا ہے کون یہ کیا بات ہے
بج رہے ہیں کان اف کیسی بھیانک رات ہے
حلقۂ ظلمت میں ہے راہوں کی سہمی روشنی
یا چمکتی ہیں گھنی جھاڑی سے آنکھیں شیر کی
لرزہ بر اندام ہے صحن زمیں کا عرض و طول
ہو رہا ہے خاک پر ناپاک روحوں کا نزول
آ رہی ہیں آسماں سے یہ صدائیں دم بہ دم
دیکھ اسباب ہلاکت پر نہ پڑ جائے قدم
بام و در پر موت کا پرچم ہے لہرایا ہوا
آ رہی ہے ہر قدم پر بوئے انفاس وبا
رونگٹے سارے کھڑے ہیں سانس لینا ہے وبال
الاماں شور سگان راہ و غوغائے شغال
اف لرزتی خوفناک آواز چوکیدار کی
نبض چھوٹی جا رہی ہے گنبد دوار کی
چپکے چپکے سانس لینے سے گھٹا جاتا ہے دم
رکھ رہا ہوں بولتے ذروں پہ رک رک کر قدم
عبرت و دہشت کا خنجر ہے دل غم ناک پر
ہائے یہ بے دم پڑا ہے کون ٹھنڈی خاک پر
آہ اے بے کس ضعیفہ غم کی تڑپائی ہوئی
اے زمانے کی جھنجھوڑی زر کی ٹھکرائی ہوئی
میرے دل کے آئنے کو کر رہا ہے چور چور
تیرے سر پر رہ گزر کی شمع کا ہلکا سا نور
یہ ترے سر کی سفیدی اور یہ گرد ملال
میں تو کیا شرما رہا ہے خود خدائے ذو الجلال
بھوک کے لشکر کا ہے رخ پر ترے گرد و غبار
عہد رازاقی کے ماتھے پر عرق ہے آشکار
تیرے بچے تیرے گردوں کے ستارے کیا ہوئے
اے ضعیفہ تیری پیری کے سہارے کیا ہوئے
آہ اے دکھیا یہ کیسی پائمالی ہو گئی
ٹھوکریں کھانے کو تیری گود خالی ہو گئی
سو رہا ہے تیرا وارث کس طرف پہنے کفن
دفن ہے کس دیس میں تیرا عروسی بانکپن
بزم عشرت میں دلہن کس نے بنایا تھا تجھے
بیاہ کر کون اپنے گھر میں آہ لایا تھا تجھے
خون رخ پر دوڑتا ہوگا تری آواز سے
تجھ کو پالا ہوگا تیری ماں نے کس کس ناز سے
ڈالتی ہوگی تجھے نہلا دھلا کر سر میں تیل
باپ کا دل کھینچتا ہوگا تری گڑیوں کا کھیل
پاس کی تاثیر کیوں چہرے پہ دونی ہو گئی
مائکا ویراں ہوا سسرال سونی ہو گئی
چاہنے والے ترے سب تربتوں میں سو گئے
کھیلتی تھی جن گھنے باغوں میں وہ کیا ہو گئے
اف ری مایوسی کسی کا آسرا رکھتی نہیں
شبہ ہوتا ہے کہ تو شاید خدا رکھتی نہیں
تو کہاں کی رہنے والی ہے ترا کیا نام ہے
بول تو کس دل نشیں آغاز کا انجام ہے
ہند میں انسانیت کا دور ہی باقی نہیں
درد ہو کس طرح کوئی مرد ہی باقی نہیں
مرد ہی ہوتے تو کرتے بیکسوں کا احترام
مرد ہی ہوتے تو رہ سکتے تھے یوں بن کر غلام
خدمت اغیار سے فرصت کوئی پاتا نہیں
سچ ہے اپنوں پر غلاموں کو ترس آتا نہیں
اے ضعیفہ ننگ ہے تو ملک و ملت کے لیے
تو ہے اک دھبا جبین اہل دولت کے لیے
اک کھلی ذلت ہے ادیان و ملل کے واسطے
طوق ہے لعنت کا تو اہل دول کے واسطے
تو وعید قہر ہے ارباب عشرت کے لیے
برص کا اک داغ ہے روئے حکومت کے لیے
مجھ کو حیرت ہے کہ تجھ کو دیکھ کر زار و نزار
گڑ نہیں جاتے حیا سے حاکمان ذی وقار
دیکھ کر تیرا ڈھلا منکا نہیں ہوتا ہے چور
گردنوں کے خم کو سختی بخشنے والا غرور
پڑ نہیں جاتے الٰہی سینہ دولت میں داغ
بجھ نہیں جاتے شبستان امارت کے چراغ
اپنی تاب زر سے اے سرمایہ دارو! ہوشیار
اپنے تاجوں کی چمک سے تاجدارو ہوشیار
نیلم و یاقوت سے شعلے بھڑک اٹھنے کو ہیں
سرخ دیناروں میں انگارے دہک اٹھنے کو ہیں
فرش گل والو زمیں پر لوگ محو خواب ہیں
خرمنوں کے پاسبانو بجلیاں بیتاب ہیں!!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.