مری آنکھیں
اٹی ہیں گرد سے پھر بھی
میں سب کچھ دیکھ سکتی ہوں
زمیں پر
گاؤں نے
جب روپ دھارا
شہر کا
تب سے
سحر کی آنکھ کھلتے ہی
اسے پھر نیند آنے تک
ہزاروں نقش پا بنتے بگڑتے ہیں
کئی مانوس ہیں ان میں
کئی ہیں اجنبی لیکن
سبھی یہ چاہتے ہیں
یاد رہ جائیں زمانے کو
سحر کی آنکھ کھلتے ہی
اسے پھر نیند آنے تک
نہ جانے کتنے رکشے سائکلیں موٹر
مجھے یوں روند کر
آگے بڑھتے ہیں
کہ جیسے میں نے اپنا جسم
ان کو بیچ ڈالا ہے
میں راہوں کا
مقدر ہوں
ستم دیکھو
مرے سینے پہ پھوڑے پھنسیاں اب بھی
گڑھوں کی شکل میں
پھیلی ہوئی ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.