زرد کلی
میرے آنگن میں جو بیلے کا حسیں پودا ہے
اس میں دو پھول ہیں اور پانچ سہانی کلیاں
اک کلی زرد ہے بیمار ہے افسردہ ہے
ان کو چھوتی ہوئی لہراتی ہے جب موج سحر
مسکرا اٹھتے ہیں لب رقص میں آتی ہے نظر
یاد آتا ہی نہیں مجھ کو مرا زخم جگر
سوچتا ہوں کہ یہ نکہت ہے تو پھر غم کیا ہے
پھول ہنستے ہیں تو کیوں سوچوں کہ شبنم کیا ہے
اسی عالم میں وہ بیمار کلی کہتی ہے
باغباں مجھ کو بھی اک پیار کا بوسہ دے دو
ساز ہوں لاکھ شکستہ سہی نغمہ دے دو
شمع ہوں لاکھ فسردہ سہی جلوہ دے دو
اور پھر بیلے سے اک شور فغاں اٹھتا ہے
میرے خوشبو بھرے آنگن سے دھواں اٹھتا ہے
راس پھولوں کا بھی صد حیف نہ انداز آیا
زندگی چھوڑ دے پیچھا مرا میں باز آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.