ضرورت اقبال
کچھ ایسے روپ میں آیا ہے فتنۂ حاضر
تمیز دوستاں و دشمناں بھی مشکل ہے
ہے پھر ضرورت اقبال تربیت کے لئے
وگرنہ قوم پر یہ امتحاں بھی مشکل ہے
ہجوم کم نظراں سے ہیں راستے مسدود
دلیل راہ کہاں اب تو کارواں بھی نہیں
تڑپ کے گم ہوئی بانگ درا فضاؤں میں
کہ زندگی کا یہاں دور تک نشاں بھی نہیں
یہ وہ زمیں تو نہیں تو نے جس کو چاہا تھا
یہاں تو پھوٹ ہے نفرت ہے خود پرستی ہے
غنیم شہر کی دیوار تک چلا آیا
ادھر یہ حال کہ آپس کی چیرہ دستی ہے
نگہ بلند سخن دل نواز جاں پر سوز
ہم ایسے راہنما کے لئے ترستے رہے
مگر یہ اپنا مقدر کہ رہزنوں کے سبب
قدم قدم پہ اٹھائے فریب زخم سہے
عوام کو رہی فکر معاش ہر لمحہ
مدبروں نے بھی چاہا یہی غنیمت ہے
شعور جاگ اٹھا تو یہ ہم پہ فاش ہوا
ہمارا دور ہے اپنی بھی قدر و قیمت ہے
شعور جاگ اٹھا ہے یہی غنیمت ہے
خودی کے زور سے خود اختیار بھی ہوں گے
ہمارا دور اب آیا اس اعتماد کی خیر
ہمارے نام پیام بہار بھی ہوں گے
ہم اپنے چاند ستارے کی آبرو کے امیں
لہو سے ملت بیضا کو روشنی دیں گے
سلام شاعر مشرق کے شاہکار جمیل
ہم اپنے عزم و عمل کا ثبوت بھی دیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.