زوال عہد تمنا
ہوا میں اڑتا ہے کاجل فضا ہے حزن سے بوجھل
ہر ایک کنج کی ہلچل کہر میں ڈوب چلی ہے
وہ کہکشاں ہے وہ اس پر سحاب نور کا باراں
یہ اپنا خاک بسر گھر یہ اپنی تیرہ گلی ہے
وہ ماہ نکلا پہ اس کا فروغ بحر فلک ہے
نصیب ارض تو شاید تکدر ازلی ہے
نہ جانے کب سے خیالوں میں اپنے محو کھڑی ہے
وہ اک سکھی جو نزاکت میں موتیا کی کلی ہے
نہ پھول بالوں میں گوندھے نہ گھر میں دیپ جلایا
شریک غم نے منایا مگر نہ ان سے منی وہ
وہ تھک کے لیٹ گئے خواب کے نگر کو سدھارے
مگر دریچے میں اپنے کھڑی سسکتی رہی وہ
ستارے کرتے رہے چشمکیں تو کچھ بھی نہ بولی
کہ ایک شاخ تھی غنچوں کے خوں میں ڈوبی ہوئی وہ
نہ جانے دانش و دین و ہنر کا نرخ ہو اب کیا
رواں پاک کی قیمت تو جگ میں ہار گئی وہ
نہ ڈھونڈ پائی مداوائے زخم زار تمنا
سمجھ سکی نہ تقاضائے عہد طفل کشی وہ
افق سے تا بہ افق زرد نا مراد بگولے
افق سے تا بہ افق اک مہیب سوگ ہے طاری
افق سے تا بہ افق سنگ دل کٹھور چٹانیں
ہر ایک سحر ہے صیاد ہر طلسم شکاری
ہر ایک جادہ میں بوسیدہ استخوانوں کے ٹکڑے
کہیں ہے سوختہ محمل کہیں شکستہ عماری
نہ جہل سے کوئی ڈھارس نہ آگہی سے تسلی
نہ وقت نالہ و زاری نہ ہوش زخم شماری
نہ کوئی نند انہیں اپنی جھونپڑی میں پناہ دے
جو شیام لاڈلے کل تھے وہ آج سب پہ ہیں بھاری
نہ ان کی آگ سے گلشن کوئی ظہور میں آئے
نہ ان کے پاؤں رگڑنے سے رود آب ہو جاری
نہ ان کو تیرہ کنویں سے نکالیں قافلے والے
نہ نیل وقت کی موجوں کو ان کی جان ہو پیاری
نہ ان کے دامن عصمت کو تھام لینے سے چھائیں
گھٹائیں تشنہ دہن بانجھ وادیوں پہ ہماری
نہ ان کی چشم کرم صرصر و سموم میں گھولے
صفائے باد سحر دم سرور باد بہاری
ہر اک امنگ کی تتلی نے جیسے جوگ لیا ہے
ہر اک امید کے جگنو نے تن پہ راکھ ملی ہے
ہزار سالہ مسافت خیال و وہم و گماں کی
اور اس کے بعد بھی پنہاں شعاع لم یزلی ہے
جو آس تیرہ گپھاؤں میں جنگلوں میں تھی رہبر
وہ جگمگاتی ہوئی نگریوں میں روٹھ چلی ہے
یہ مامتا ہے کہ شعلوں میں کوئی پھول کی پتی
حیات ہے کہ ابھاگن یہ کوئی کوکھ جلی ہے
یہ کائنات ہے کتنی عظیم کتنی کشادہ
مگر ہمارے تصور کے تنگنا میں ڈھلی ہے
نہ جانے کب سے خیالوں میں اپنے محو کھڑی ہے
وہ اک سکھی جو نزاکت میں موتیا کی کلی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.