زوال کی آخری چیخ
چھٹی بار جب میں نے دروازہ کھولا
تو اک چیخ میرے بدن کے مساموں سے چمٹی
بدن کے اندھیروں میں اتری
مرا جسم اس چیخ کے تند پنجوں سے جھلسی ہوئی
بے کراں چیخ تھا
میں لرزتا ہوا کہنہ گنبد سے نکلا
اور چیخ میرے بدن سے سیاہ گھاس کی طرح نکلی
بدن کے کروڑوں مساموں کے منہ پر
سیاہ چیخ کا سرخ جنگل اگا تھا
کوئی چیخ اب بھی ابھرتی تھی جس سے
گنبد کے دیوار و در کانپتے تھے
کوئی شے دکھائی نہیں دے رہی تھی
فقط اک دھواں تھا
جو گنبد کے سوراخ سے اپنے پاؤں نکالے
ہواؤں کے بے داغ سینوں سے چمٹا ہوا تھا
ساتویں بار پھر میں نے دروازہ کھولا
تو میرے لہو کی ہر اک بوند میں
ساتویں بار پھر سرسراتی ہوئی چیخ گزری
میں نے دیکھا کہ گنبد میں میلی زمیں پر
نزع کی حالت میں اک لاش ہے
جس نے اب ساتویں بار میرے بدن میں
ساتویں چیخ کا گرم لاوا اتارا
یہ زوال کی آخری سرد چیخوں کی اک چیخ تھی
- کتاب : Prindey,phool taalab (Pg. 80)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.